حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات بہت جلد متوقع ہیں،پروفیسرابراہیم، حکومت اور طالبان کو مذاکراتی عمل کو تیزی سے آگے بڑھانا ہوگا،امن مخالف قوتوں کو مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا موقع مل سکتا ہے،حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان براہ راست مذاکرات کے درمیان تو قیدیوں کے مسئلے سمیت تمام امور زیر بحث آئینگے،300سے زائد عورتیں ، بچے اور غیر عسکری افراد مختلف حکومتی ایجنسیوں کی قید میں ہیں ،آئی ایس پی آر نے طالبان کے دعوے کی تردید کی ہے، دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے دلائل کا جواب دلائل سے دینا ہوگا، پاکستان کا آئین اسلامی ہے ، آئین پر جیسے جید علماء کرام اور سیاسی رہنماؤں کے دستخط موجود ہیں،میڈیاسے بات چیت

بدھ 19 مارچ 2014 20:51

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19مارچ۔2014ء) جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات بہت جلد متوقع ہیں ۔ حکومت اور طالبان کو مذاکراتی عمل کو تیزی سے آگے بڑھانا ہوگا،تاخیر نقصان دہ ہوسکتی ہے اور امن مخالف قوتوں کو مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔

اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکراتی عمل میں ٹائم فیکٹر بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے ۔ پوری قوم حکومت اور طالبان مذاکرات کی کامیابی چاہتی ہے اور امن کی خوشخبری سننے کے لئے بیتاب ہے ۔انشاء اللہ تعالیٰ حکومت اور طالبان مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ جب حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوں گے تو قیدیوں کے مسئلے سمیت تمام امور زیر بحث آئیں گے اور دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے دلائل کا جواب دلائل سے دینا ہوگا۔

(جاری ہے)

پاکستان کا آئین اسلامی ہے ۔ ہم آنکھیں بند کرکے پاکستان کے آئین کو اسلامی قرار نہیں دے رہے بلکہ پاکستان کے آئین پر مولانا مفتی محمودمرحوم،غلام غوث ہزاروی مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم ، پروفیسر عبدالغفور احمد مرحوم، مولانا عبدالحکیم ہزاروی مرحوم،ڈاکٹر نذیر شہید ، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی ،صاحبزادہ صفی اللہ مرحوم جیسے جید علماء کرام اور سیاسی رہنماؤں کے دستخط موجود ہیں۔

ان خیالات اظہار انہوں نے بدھ کے روز المرکز اسلامی پشاور میں مختلف ملکی اور غیرملکی ٹی وی چینلز ، ریڈیوز اور اخباری رپورٹروں کو الگ الگ انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ پروفیسر محمدا براہیم خان نے مزید کہاکہ اگر چہ طالبان کے پاکستان کے آئین کے بارے میں خیالات یا موقف پر تو ہماری باقاعدہ بات نہیں ہوئی لیکن چائے کی میز پر غیر رسمی گفتگو میں ہم نے انہیں پاکستان کے آئین کے اسلامی ہونے کے اپنے دلائل سے آگاہ کیا ہے ۔

تاہم انہوں نے کہا کہ طالبان پاکستان کے آئین کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں اُن کاحکومت، طالبان مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے طالبان سے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین کی اسلامی حیثیت کے بارے میں ملک کے ایسے جید علماء کرام سے رابطہ کیا جا سکتا ہے جن پر طالبان سمیت ملک بھر کے عوام کا اعتما د ہو۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے مزید کہا کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ 300سے زائد عورتیں ، بچے اور غیر عسکری افراد مختلف حکومتی ایجنسیوں کی قید میں ہیں جبکہ آئی ایس پی آر نے طالبان کے دعوے کی تردید کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ نہ تو طالبان کے دعوے کی تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ آئی ایس پی آر کے بیان کو غلط یا درست کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے طالبان کمیٹی کے پاس کوئی معلومات نہیں۔ تاہم انہوں نے کہاکہ طالبان چاہتے ہیں کہ ان کے دعوے کی حقیقت جاننے کے لئے کوئی تحقیقاتی کمیشن بنایا جا سکتا ہے جو ان علاقوں کا دورہ کر کے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ طالبان کے دعوے میں کتنی صداقت ہے؟ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ معاملات حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے اور جب حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان براہ راست مذاکرات شروع ہونگے تو فریقین ایک دوسرے کے موقف سے درست طور پر آگا ہو سکیں گے ۔

انہوں نے کہاکہ حکومت اور طالبان مذاکرات اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو نے والے ہیں اور انہیں اُمید ہے کہ یہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں گے کیونکہ طالبان شوریٰ اور وزیراعظم نواز شریف ، وزیر داخلہ چوہدری نثار سمیت اعلی حکومتی عہدیداروں سے حالیہ ملاقاتوں میں انہوں نے یہ محسوس کہا ہے دونوں طرف امن کی شدید خواہش پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں مذاکرات کی کامیابی کی قوی اُمید ہے۔