تھر میں حالیہ اموات میں اضافے کا تعلق عوام کا صحت کی سہولتوں تک عدم رسائی سے ہے ، عالمی ادارہ صحت ،تھر میں بچوں اور حاملہ خواتین میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت موجود ہے ، ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ

جمعرات 13 مارچ 2014 20:09

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13مارچ۔2014ء) صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ تھر میں حالیہ اموات میں اضافے کا تعلق عوام کا صحت کی سہولتوں تک عدم رسائی سے ہے۔جمعرات کو ڈبلیو ایچ او نے اپنے جائزہ رپورٹ میں کہا کہ تھر میں قریبی صحت مرکز تک پہنچنے کیلئے ایک ہزار سے چار ہزار رپے درکار ہوتے ہیں اور یہ سفر دو سے چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔

سرکاری رکارڈ کے مطابق تھر میں ایک ضلعی ہسپتال، تین تحصیل ہسپتال، دو دیہی صحت مرکز، 34 بنیادی صحت مرکز، دو ماں اور بچہ صحت مرکز اور 82 ڈسپینسریاں موجود ہیں جن میں 29 اسپیشلسٹ، 165 ڈاکٹروں جن میں ستائیس لیڈی ڈاکٹروں کی آسامیاں خالی ہیں، اسی طرح تین نرسنگ اسٹاف، 50 لیڈی ہیلتھ وزیٹرز اور 26 پیرامیڈیکل اسٹاف کی آسامیاں خالی ہیں۔

(جاری ہے)

صحت کے عالمی ادارے نے کہا کہ تھر میں سرکاری رکارڈ کے مطابق 67 بچے ہلاک ہوئے ہیں تاہم یہ اعداد و شمار سرکاری صحت مراکز تحت محدود ہیں، سرکاری نظام سے باہر اموات رکارڈ نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے اموات کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق تھر میں بچوں اور حاملہ خواتین میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت موجود ہے، جس سے انفیکشن اور کئی بیماریوں میں جکڑنے کے خدشات موجود ہیں۔ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں تھر میں پہلے سے غذائی قلت کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے، رپورٹ کے مطابق غذائی قلت کی وجہ سے ورلڈ فوڈ پروگرام، ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف نے پہلے ہی تھر کو اولیت دے رکھی ہے۔

تھر میں کاشت کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا کہ کمرشل زراعت بدین اور میرپورخاص اضلاع کے قریبی علاقوں تک محدود ہے جبکہ باقی تمام زراعت گھریلو استعمال کیلئے کی جاتی ہے،گذشتہ سال تاخیر سے ہونے والی بارشوں کی وجہ سے یہ کاشت نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے عوام کو گھریلو اناج میں قلت کا سامنا کرنا پڑا۔صحت کے عالمی ادارے کے مطابق مارچ اور اپریل میں بیس سے تیس فیصد آبادی بیراجی علاقوں میں جاتی ہے جہاں وہ گندم کی کٹائی کیلئے مزدوری کرتے ہیں، نقل مکانی کرنے والوں میں اکثریت میگھواڑ، بھیل اور کولھی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہے۔

متعلقہ عنوان :