وفاقی اور صوبائی حکومتوں، مقامی انتظامیہ، سرکاری اداروں اور فلاحی اداروں کی جانب سے صحرائے تھر میں امدادی سرگرمیاں

پیر 10 مارچ 2014 14:46

وفاقی اور صوبائی حکومتوں، مقامی انتظامیہ، سرکاری اداروں اور فلاحی ..

مٹھی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 10مارچ 2014ء) وفاقی اور صوبائی حکومتوں، مقامی انتظامیہ، سرکاری اداروں اور فلاحی اداروں کی جانب سے صحرائے تھر میں امدادی سرگرمیاں پیر کو بھی جاری رہیں تاہم بھوک اور پیاس سے نڈھال عوام کی مشکلات برقرارر ہیں اور ہزاروں دیہات میں امدادی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکیں۔تفصیلات کے مطابق فاقی اور صوبائی حکومتوں، مقامی انتظامیہ، سرکاری اداروں اور فلاحی اداروں کی جانب سے صحرائے تھر میں امدادی سرگرمیاں پیر کو بھی جاری رہیں تاہم صورتحال حال میں کسی بھی قسم کی بہتری نظر نہیں آئی۔

غذائی قلت کا شکار ہوکر نمونیا، بخار، دست و قے، خون و وزن کی کمی اور ہیپا ٹائیٹس جیسے موذی امراض کاشکار ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا جبکہ حاملہ خواتین خوراک نہ ملنے کے باعث آئرن کی کمی کا شکار ہوگئیں۔

(جاری ہے)

حیدر آباد میں زیر علاج مزید تین نوزائدہ بچے بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوکر ابدی نیند جا سوئے جس کے بعد جاں بحق بچوں کی تعداد 126 سے تجاوز کرگئی ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے ان خواتین کو وٹامن اور آئرن کی ادویات کی سخت ضرورت ہے۔رپورٹ کے مطابق صحرائے تھر میں امدادی سرگرمیوں کا مرکز ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی بنا جہاں سندھ حکومت ، پاک فوج اور رینجرز کے علاوہ مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی جماعتوں نے اپنے اپنے امدادی کیمپ لگا رکھے ہیں تاہم ضلع کے 2ہزار 700 سے زائد دیہات میں صورتحال بدتر ہے، جہاں اب تک نہ تو امداد پہنچی ہے اور نہ ہی میڈیکل ٹیمیں جا سکیں جس کے باعث یہاں کے مکینوں کی حالت بھوک و بیماری سے انتہائی خراب ہے۔ لوگ اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ مٹھی اور اسلام نگر کی جانب نقل مکانی شروع کر دی -

متعلقہ عنوان :