قومی اسمبلی میں حکومتی واپوزیشن ارکان کا قومی داخلی سلامتی پالیسی کاخیرمقدم، احسن اقدام قراردیدیا، ایف ایٹ کچہری حملہ سیکیورٹی کی واضح ناکامی ہے ،تمام سیاستدانوں کو بلاول بھٹو کی طرح عسکریت پسندوں کے خلاف دلیرانہ موقف اختیار کرنا ہوگا،شازیہ مری،دہشتگردی کیخلاف جنگ عالمی استعمارکی ہے، ماضی میں مذاکرات کے بعد ہونیوالے اعلامیوں پرعملدرآمد نہیں کیا گیا،کسی ایک گروپ سے مذاکرات کئے گئے تو وہ غیرموثرہوجائیں گے، لگتا ہے دینی مدارس میں اصلاحات کاایجنڈا مسلم لیگ ن کانہیں امریکہ کا ہے، دینی مدارس کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ،مولانافضل الرحمان، بہت سے اہم نکات نظرانداز کئے گئے،ڈاکٹرعارف علوی

جمعرات 6 مارچ 2014 21:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6مارچ۔2014ء) قومی اسمبلی میں حکومتی واپوزیشن ارکان نے قومی داخلی سلامتی پالیسی کاخیرمقدم کرتے ہوئے اسے احسن اقدام قراردیاہے، ایف ایٹ کچہری حملہ سیکیورٹی کی واضح ناکامی ہے تمام سیاستدانوں کو بلاول بھٹو کی طرح عسکریت پسندوں کے خلاف دلیرانہ موقف اختیار کرنا ہوگا،دہشتگردی کیخلاف جنگ عالمی استعمارکی ہے، ماضی میں ہم نے مذاکرات کے بعد ہونیوالے اعلامیوں پرعملدرآمد نہیں کیا گیا،کسی ایک گروپ سے مذاکرات کئے گئے تو وہ غیرموثرہوجائیں گے، ایسا لگتا ہے کہ دینی مدارس میں اصلاحات کاایجنڈا مسلم لیگ ن کانہیں بلکہ امریکہ کا ہے، دینی مدارس کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ، بہت سے اہم نکات نظرانداز کئے گئے، موجودہ مسائل کا حل ہمیں ملکر تیار کرنا ہوگا ، ہمارے ملک میں عجیب رواج ہے جس چیز کا ستیاناس کرنا ہو اس بارے میں کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے، دینی مدارس کو کون سے ملک فنڈنگ کررہے ہیں ریاست کو جرات کرنا ہوگی، قومی سلامتی پالیسی کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور ملک میں امن قائم ہوگا،وزیرداخلہ باتیں کم کریں کام زیادہ کریں ،ہشتگردی سب کامشترکہ مسئلہ ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو بھی قومی اسمبلی میں قومی داخلی سلامتی پالیسی پر بحث جاری رہی سپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے قومی داخلی پالیسی کاخیرمقدم کیاتاہم اس پالیسی میں بعض اہم پہلوؤں کو نظر انداز کئے جانے کی بھی نشاندہی کی۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی ایوان میں پیش ہوتے ہی وفاقی دارالحکومت کونشانہ بنایا گیا ایف ایٹ کچہری حملہ سیکیورٹی کی واضح ناکامی ہے تمام سیاستدانوں کو بلاول بھٹو کی طرح عسکریت پسندوں کے خلاف دلیرانہ موقف اختیار کرنا ہوگا ۔

جے یوآئی کے سربراہ مولانافضل الرحمان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ امن افغانستان میں2001ء کے بعد کی صورتحال کے بعد پاکستان کے حالات خراب تر ہونا شروع ہوگئے یہ جنگ عالمی استعمار کی ہے یہ دہشتگردی کیخلاف جنگ نہیں کثیر المقاصد جنگ ہے ہم نے اسی تناظر میں اس کاجائزہ لینا ہے انہوں نے کہا کہ روس اورچین میں کمیونسٹ نظام نے جب دم توڑا تو انہوں نے نظریات اورثقافت پرحملے شروع کردیئے انہوں نے کہاکہ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے جسے یورپی ممالک نے متعارف کرایا امریکہ اورمغربی قوتیں اپنے اقتصادی مفادات کاتحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ثقافتی یلغار بھی کررہی ہیں انہوں نے ترک جیسی جنگجو قوم کو بھی ثقافتی یلغار کانشانہ بنالیا اب پاکستان کی باری ہے مولانافضل الرحمان نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ شروع کرتے ہوئے دو آراتھیں نائن الیون کے بعد امریکہ کو اسامہ بن لادن مطلوب تھا اس موقع پر پاکستان میں اس وقت برسراقتدار ڈکٹیٹر نے امریکہ کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان میں اڈے قائم کرنے دیئے مگر اسلامی قوتوں نے افغانستان کاساتھ دیا ہمارے قبائل نے روس کیخلاف بھی جہا د کیا آج وہ امریکہ کیخلاف برسر پیکار ہیں مشرف کی یکطرفہ غلط پالیسی نے قبائل میں غیر ریاستی عناصر کو مشتعل اورمتحرک کیا انہوں نے قومی داخلی پالیسی کاخیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی کی اشد ضرورت تھی حکومت نے ایک قابل تحسین کام کیا ہے2008ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرارداد کو ردی میں ڈال دیا گیا دو وزرائے اعظم نے آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے جاری کئے مگر انہیں کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہم نے قومی داخلی سلامتی پالیسی کاجائزہ لیا ہے مگر اس خارجہ پالیسی کے حوالے سے اہم پہلوؤں کو نظرانداز کیا گیا ہے پارلیمنٹ کی جانب سے متفقہ طورپر توثیق شدہ خارجہ پالیسی کے نکات اورقرارداد کو داخلی پالیسی میں شامل نہیں کیاگیا۔

انہوں نے کہاکہ ماضی میں ہم نے مذاکرات کے بعد ہونیوالے اعلامیوں پرعملدرآمد نہیں کیا گیا اسی وجہ سے معا ملات بگڑ گئے انہوں نے کہاکہ مذاکرات کی تجویز ہم نے دی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی یہی طے ہوا فوج نے بھی مذاکرات کی حمایت کی اگر مذاکرات کرنے تھے تو فاٹا کے اندر تمام عسکریت پسند گروپوں سے مذاکرات کئے جائیں کسی ایک گروپ سے مذاکرات کئے گئے تو وہ غیر موثر ہوجائیں گے اورپھر ایک طرف مذاکرات ہورہے ہوں گے تو دوسری طرف دھماکے ہورہے ہوں گے اس وقت تو ہماری اس تجویز کی پذیرائی کی گئی مولانافضل الرحمان نے کہاکہ حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے وقت صحیح حکمت عملی سے کام نہیں لیا انہیں آسمان پراٹھالیا ہم نے مذاکرات کرنا تھے تو انہیں ان کے مقام تک رکھ کرکئے جاتے انہیں بے جا اہمیت دی گئی ان کی دلیل کو کمزور کیا گیا اورنہ ہی ان کے حجم کو کم کیا گیا اسی وجہ سے مذاکرات کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے انہوں نے کہا کہ جب آگ لگ گئی اور گھر جل گیا تو حکومت کو نیکٹا بنانے کاخیال آیا دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ملک کابہت سا جانی نقصان ہوگیا ہے اب پاکستان مزید اس کامتحمل نہیں ہوسکتا مذاکرات صرف ایک گروپ سے کئے گئے جو ایک بڑی غلطی تھی ہمیں اپنے آئین کے تقاضوں کے مطابق صرف ایک گروپ سے مذاکرات جاری رکھے تو ہم اس پارلیمنٹ سے اور اس ملک سے مخلص نہیں ہوں گے۔

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ حکومت نے دینی مدارس کی رجسٹریشن کافیصلہ2004ء میں کیا تھا مگر آج ایک بار پھر قومی داخلی سلامتی پالیسی میں دینی مدارس کی اصلاحات کی آڑ میں اس کے نصاب پرنظرثانی کی باتیں ہورہی ہیں دوسری جانب دیگر تعلیمی اداروں میں تعلیم کے روپ میں سیکس کی تعلیم دی جارہی ہے مشرقی اقدار کاتحفظ کرنیوالے دینی اداروں پرگھیرا تنگ کیاجارہا ہے دینی مدارس نے ملک کوبچایا ہے ہماری جماعت کے فیصلوں نے اس ملک اور جمہوریت کو بچایا ہے دینی مدارس ڈیڑھ صدی سے اسلام کی خدمت کررہے ہیں مذہبی علوم، مذہبی اقدار کاتحفظ کررہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ دینی مدارس میں اصلاحات کاایجنڈا مسلم لیگ ن کانہیں بلکہ امریکہ کا ہے طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کیاجائے تاکہ سرمایہ دار اورغریب کابچہ ایک جیسی تعلیم حاصل کرے مولانا فضل الرحمان کاکہناتھا کہ ہم نے مغربی قوتوں کو خوش کرنے کیلئے اپنے قوانین میں ترامیم کیں جس کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ لوگ کاروکاری کی نذر ہوگئے انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے حکومت کاساتھ دیناچاہتے ہیں اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں مگر پہلے ہمیں اس قابل بنایا جائے ۔

پاکستان تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹر عارف علوی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ قومی داخلی سلامتی پالیسی کابغور جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بہت سے اہم نکات نظرانداز کئے گئے انسداد دہشتگردی ایکٹ کی شق 7 , 8 اور9 کو گرفتار تو کرلیں گے مگر انہیں سزا دینے کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کیاجائیگا قومی داخلی سلامتی پالیسی میں کونفلکٹ ریسولوشن کے حوالے سے ذکر تک نہیں کیا گیا ۔

رکن قومی اسمبلی عبیداللہ شادی خیل نے کہا کہ موجودہ مسائل کا حل ہمیں ملکر تیار کرنا ہوگا دہشتگردی کسی ایک جماعت کانہیں ملک کا اجتماعی مسئلہ ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اورسابق وزیرراعظم میرظفراللہ جمالی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان ایک بہت نازک دورسے گزررہا ہے تمام اہم معاملات پرایوان کے اندر بیٹھے ہوئے ارکان کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی اعتماد میں لیاجائے جو موجودہ منتخب نہیں ہوسکے انہوں نے کہاکہ ہمارے ملک میں عجیب رواج ہے جس چیز کا ستیاناس کرنا ہو اس بارے میں کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے پارلیمنٹ میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اپنے ماتحت اداروں کاجائزہ لے سکیں انہوں نے کہاکہ پورا ملک ادھار پر چل رہا ہے حکومت آئی ایم ایف کی منت سماجت کرکے قرضہ لیتی ہے اورصوبوں کوفنڈز دیتی ہے تو پھر صوبے کیسے قومی داخلی سلامتی کیلئے اپنے حصے میں سے فنڈز دے گی صوبوں کے پاس دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں بلوچستان کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اس وجہ سے ان کااحساس محرومی بڑھتا گیا انہوں نے کہا کہ پاکستان بنانے والوں میں حصہ ڈالنے والے آج ملک بنانے کے دعویدار ہیں میثاق جمہوریت کے تحت پہلی ٹرم پیپلزپارٹی اور دوسری ٹرم مسلم لیگ ن کو ملی اب معلوم نہیں کہ میثاق جمہوریت کے تحت اگلی ٹرم کس کی ہوگی۔

ایم کیو ایم کے رکن ایس اے اقبال قادری نے کہا کہ یہ وقت قومی داخلی پالیسی بنانے کا وقت نہیں عمل کرنے کا ہے ہم نے لاتعداد ایکٹ بنائے شرپسند عناصر سے نمٹنے کیلئے آئین اورقانون میں پہلے ہی بہت سے ایکٹ ہیں انہیں خلوص نیت سے لاگو کیاجاتا تو کسی بھی پالیسی کی ضرورت نہیں ہوتی قانون نافذ کرنیوالے ادارے اگر اپناکام ذمہ داری سے کرتے تو حالات یوں نہ ہوتے چھ لاکھ پولیس والوں پراربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں مگر ملک کے حالات دگرگوں ہوگئے ہیں دینی مدارس کی بات کرتے ہیں تو طے کیاجائے کہ ان دینی مدارس کو کون سے ملک فنڈنگ کررہے ہیں ریاست کو جرات کرنا ہوگی ۔

مسلم لیگ ضیاء کے رکن اعجازالحق نے قومی سلامتی داخلی پالیسی کاخیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت کی اہم ضرورت تھی حکومت کااحسن اقدام ہے دہشتگردی کی وجہ سے اب تک78 ارب کانقصان ہوچکا ہے 50 ہزار سے زائد جانیں اس کاشکار ہوچکی ہیں اور یہ نقصان دن بدن بڑھتاجارہا ہے انہوں نے کہا کہ دہشتگردقانون سے بالاتر نظرآتے ہیں اس وقت کی حکومت نے ایسی پالیسی اختیار کی جس کاخمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی بہت اچھی ہے مگر یہ سوال ہے کہ 23 ارب روپے کی لاگت سے بننے والی فورس جو ایک اورظفرموج ہوگی کے قیام سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل کرسکیں گے انہوں نے کہاکہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ آج میرے انتہائی محترم سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی بھی اپنے صوبے کے احساس محرومی کابڑے دکھ سے اظہار کررہے ہیں اایسے کیوں ہورہاہے دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل کرسکیں گے کیا بلوچستان کے ساتھ ساتھ فاٹا کے احساس محرومی کو ختم کئے جانے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں یاوہی گورنران کاوائسرائے بنا ہوا ہے اگراحساس محرومی ختم کرنے کیلئے موثر اقدامات زیر غورنہیں تو قومی داخلی پالیسی سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے انہوں نے کہا کہ1994ء سے 2004ء تک مدارس کی رجسٹریشن پر پابندی تھی مگر مدارس بننے پر کوئی پابندی نہیں تھی جب 2004ء میں رجسٹریشن ہوئی تو یہ طے ہواتھا کہ ہرسال دینی مدارس اپنے نصاب اورحساب کتاب کے گوشوارے دینے کے پابند ہوں گے یہ حکومت نے کرناتھا حکومت نے نہیں کیا انہوں نے امید ظاہر کی کہ قومی سلامتی پالیسی کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور ملک میں امن قائم ہوگا۔

پیپلزپارٹی کے عمران ظفرلغاری نے کہا کہ نیکٹا میں چیئرمین وزیراعظم کو بنایا گیا ہے اس کے بورڈ میں ایک رکن اپوزیشن کابھی ہوناچاہیے تھا مشرف دور میں خیبرپختونخوا میں ایم کیوایم کی حکومت تھی اس دور میں مدارس کیلئے100 ملین روپے رکھے گئے تھے مدرسوں پر چیک تھا یہ لوگ اب کیوں کہتے ہیں کہ مدرسوں کی بات نہ کی جائے انہوں نے کہا کہ جب سے پیپلزپارٹی آئی ہے ہماری آئیڈیالوجی کی جنگ جاری ہے وزیرداخلہ کو ہم ایک گھنٹہ یہاں سنتے ہیں وہ کام کی بات کیا کریں صوبوں کو22بلین روپے دینے کیلئے کہا گیا ہے صوبے اتنی رقم کہاں سے دیں گے وزیرداخلہ باتیں کم کریں کام زیادہ کریں انہوں نے کہا کہ نیکٹا کی تشکیل پیپلزپارٹی کے دور حکومت کی میں کی گئی فاٹا کے لوگوں کو اسلام آباد کی بجائے پشاور کی طرف دیکھناچاہیے فاٹا کو پاٹا بنادیناچاہیے پنجاب بڑا بھائی ہے وہ چھوٹے بھائیوں پر رحم کرے جرائم پیشہ عناصرکیخلاف آپریشن صرف کراچی اورسندھ میں نہیں دیگر صوبوں میں بھی کیاجائے آمریت کے دور میں ملک کو لسانی ،صوبائی اوردیگر حصوں میں تقسیم کیا گیا انہوں نے کہا کہ جنت میں حوریں ملیں گی جو اچھا مسلمان ہوگا خود کش بمبار بننے سے حوریں نہیں ملیں گی۔

مسلم لیگ ن کے سردار اویس خان لغاری نے کہاکہ دہشتگردی کی اس جنگ میں50 ہزا ر سے زائد پاکستانی شہری شہید ہوئے ہیں اور ملکی معیشت کو78ارب روپے کانقصان ہوا ہے پاکستان میں ہرسال کے دورران امن وامان برقرار رکھنے کیلئے155 ارب روپے کے اخراجات ہوتے ہیں اور اس میں 76 فیصد اضافہ ہوا ہے موجودہ حکومت نے دہشتگردی جیسے اہم مسئلہ پر فوری توجہ دی اس پالیسی میں ایک سمت متعین کی گئی ہے تاکہ ملک سے دہشتگردی کاخاتمہ کیاجائے دہشتگردی سب کامشترکہ مسئلہ ہے۔