سرکاری ملازمین سرکاری وسائل کا غلط استعمال ترک کر کے کفایت شعاری کو اپنائیں،سراج الحق،تمام سرکاری ملازمین اللہ تعالیٰ اور عوام کے سامنے جوابدہ ہیں،دہشت گردی کی طرح کرپشن بھی عوام کا اہم مسئلہ ہے ،خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں،سینئرو زیرکااجلاس سے خطاب

بدھ 5 مارچ 2014 21:42

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔5مارچ۔2014ء) خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر خزانہ و نائب امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین سرکاری وسائل کا غلط استعمال ترک کر کے کفایت شعاری کو اپنائیں۔تمام سرکاری ملازمین اللہ تعالیٰ اور عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔دہشت گردی کی طرح کرپشن بھی عوام کا اہم مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ خزانہ میں کفایت شعاری کمیٹی کے ورکنگ گروپ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر صوبائی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شہرام خان ترکئی،سابقہ سیکرٹری صحت ڈاکٹر امان، سابقہ سیکرٹری فنانس فہیم اللہ خٹک اور ایڈیشنل سیکرٹری فنانس کامران رحمان بھی موجود تھے۔ سینئر وزیر نے خطاب کے دوران کہا کہ سرکاری ملازمین کے بڑے بڑے سرکاری مکانات کے خاتمے اور چھوٹے گھروں میں منتقل ہونے کے لئے تجاویزدینے کے علاوہ سرکاری گاڑیوں کے تیل کے اخراجات کے حوالے سے شفاف پالیسی بنانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

کمیٹی ارکان نے مختلف شعبہ جات میں بہتری لانے کے لئے تجاویز پیش کیں جبکہ سیاحت،آبی ذرائع،معدنیات،جنگلات،زراعت کے شعبوں میں ٹیکس کے نظام میں بہتری لانے کے لئے تجاویز بھی پیش کی گئیں۔بریفنگ میں بتایا گیاکہ تقریباً70فیصد بجٹ ،ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے اس حوالے سے خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی کو فعال بنانے کی تجویز بھی دی گئی اور ٹیکس آمدنی کے محاصل میں صوبہ سندھ کی کارکردگی کو سراہا گیا۔

اس مقصد کے لئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کا اگلا اجلاس اس مہینے کے آخر میں بلانے کا فیصلہ کیاگیا۔اس موقع پر سینئر وزیر نے سرکاری محکموں میں کاغذ کے اسراف کو روکنے کے لئے کاغذ کے دونوں اطراف کے استعمال کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔اس موقع پرصوبائی محصولات کے حوالے سے تفصیلی غور کیا گیا اور پختونخوا ریونیو اتھارٹی کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے صوبے کے محاصل کو مزید وسعت دینے کے موجودہ مواقع پر بھی روشنی ڈالی گئی ۔اس موقع پرکاری افسران کی فلاح و بہبود کے لئے ہیلتھ انشورنس پالیسی پر بھی تجاویز دی گئیں ۔

متعلقہ عنوان :