خیبرپختونخوامیں امن وامان کی صورتحال کوبرقراررکھنے کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھارہے ہیں،پرویزخٹک، قانون نافذ کرنیوالے ادارے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں،پولیس نظام کو جدیدبنانے کیلئے انقلابی قدم اُٹھائے ہیں،دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور اغواء کے واقعات کی روک تھام کیلئے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اور کاونٹر کڈنیپ سیل کے ناموں سے الگ الگ شعبے بنائے جارہے ہیں ،وزیراعلی خیبرپختونخوا کا تقریب سے خطاب

منگل 4 مارچ 2014 19:14

خیبرپختونخوامیں امن وامان کی صورتحال کوبرقراررکھنے کیلئے سنجیدہ اقدامات ..

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4مارچ۔2014ء) خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت صوبے میں امن و امان کے قیام کیلئے نہ صرف پرعزم ہے بلکہ اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات بھی اُٹھارہی ہے ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں صوبائی حکومت نے پولیس نظام کو جدیدبنانے کیلئے انقلابی قدم اُٹھائے ہیں صوبے کی تاریخ میں پہلی دفعہ پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرلیا گیا ہے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور اغواء کے واقعات کی روک تھام کیلئے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اور کاونٹر کڈنیپ سیل کے ناموں سے الگ الگ شعبے بنائے جارہے ہیں اسی طرح انٹیلی جنس کے نظام اور تفتیش کے عمل کوموثر بنانے کیلئے پولیس میں سکول آف انٹیلی جنس اور سکول آف انوسٹی گیشن کے تحت دو نئے ادارے بھی قائم کئے جارہے ہیں ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے صوبائی اسمبلی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے پارلیمانی قائدین اور اراکین کو صوبے میں امن و امان کے بارے میں دی جانے والی ایک بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر انسپکٹر جنرل پولیس ناصر درانی اور سیکرٹری محکمہ داخلہ اختر علی شاہ نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال ، اقدامات ، آئندہ کے لائحہ عمل اور دیگر اہم اُمور کے بارے میں الگ الگ بریفینگ دیں صوبائی اسمبلی کے کانفرنس روم میں منعقدہ اس بریفینگ میں اپوزیشن لیڈر سردار مہتاب احمد خان ، سپیکر اسد قیصر ، سینئر وزیر سراج الحق، مولانا لطف الرحمن، سردار حسین بابک، سید محمد علی شاہ باچا ، سکندر شیر پاؤ ، بخت بیدار خان ، شہرام خان ترکئی ، عاطف خان، شاہ فرمان، اشتیاق ارمڑ اور حکومتی و اپوزیشن پارٹیوں کے دیگر ارکان اسمبلی نے شرکت کی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس وقت صوبے کو امن و امان کے حوالے سے تین بڑے مسائل کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی ، اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری شامل ہیں عسکریت پسندوں سے حکومت کے امن مذاکرات سے دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے کے امکانات روشن ہیں جبکہ اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری کے واقعات اور دیگر جرائم سے نمٹنے کیلئے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مصروف عمل ہیں تا ہم اُنہوں نے کہا کہ اس وقت صوبے کو گھمبیر صورتحال کا سامنا ہے پڑوسی ملک افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد صوبے کو امن و امان کے مسائل سمیت مزید کئی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ صوبے میں جرائم پیشہ عناصر کا طالبان کے بہروپ میں بعض ملک دشمن عناصر سے مبینہ رابطے منقطع کرنے، سمگلنگ اور دیگر متعلقہ جرائم کی بیخ کنی بھی ضروری ہے صوبے میں افغان مہاجرین اور آئی ڈی پیز کا قیام اور نقل و حرکت بھی ایک اہم مسئلہ ہے جن سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت اور پولیس موثر اقدامات کر رہی ہے مگران میں سے بعض مسائل اور معاملات کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے جس کیلئے صوبائی حکومت کو حزب اختلاف کے بھر پور تعاون کی ضرورت ہے فرانٹیر کانسٹیبلری کے دستوں کی صوبے سے باہر تعیناتی بھی ایک مسئلہ ہے اُنہوں نے کہا موجودہ صورتحال میں ان دستوں کی واپسی اور صوبے کے سرحدی علاقو ں میں تعیناتی انتہائی ناگزیر ہے اور وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ صوبے کی نازک سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر یہ دستے صوبے کو واپس کرے اُنہوں نے امید ظاہر کی کہ صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور دیگر پارلیمانی لیڈر اس سلسلے میں تعاون کریں گے اُنہوں نے کہا کہ یہ صوبہ ہم سب کا ہے اور سب کو مل کر یہاں امن کے قیام اور اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے امن و امان کا مسئلہ اکیلے صوبائی حکومت یا صوبے کے عوام کا نہیں بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے صوبے میں پائیدارامن کے قیام کو یقینی بنانے کے سلسلے میں اپنی حکومت کے بعض اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ صوبے میں انٹیلی جنس ، انیوسٹی گیشن اور پراسکیوشن کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے الگ الگ تربیتی اداروں اور ایک جوائنٹ ٹریننگ سنٹر کے علاوہ انٹی سائبر کرائم ونگ ، فنانشل کرائم یونٹ اور فرانزک لیبارٹری بھی قائم کئے جارہے ہیں اسی طرح پشاور سیف سٹی منصوبے کے تحت شہر کی سکیورٹی کیلئے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ سکول آف ٹریفک منیجمنٹ اور ٹریفک انجینئر نگ ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے وزیر اعلیٰ نے انکشاف کیا کہ پنجاب پولیس کی طرز پر خیبرپختونخوا پولیس کی تنخواہوں میں اضافے کیلئے تین ارب روپے کی فوری منظوری دی گئی ہے جبکہ ملاکنڈ میں لیوی اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافے کیلئے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کوکیس بھیجنے کی ہدایت کی جارہی ہے اُنہوں نے مزید بتایا کہ چونکہ شہریوں کا زیادہ تر واسطہ پولیس اور تھانوں سے پڑتاہے اسلئے پشاور میں ابتدائی طور پر تین ماڈل پولیس اسٹیشنز قائم کئے جار ہے ہیں جنہیں بعد میں پورے صوبے تک توسیع دی جائے گی پرویز خٹک نے کہا کہ ماضی میں انٹیلی جنس اور انوسٹی گیشن کے نظام پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے دہشت گردی ہمارے معاشرے میں سرائیت کر گئی مگر موجودہ صوبائی حکومت نے ان شعبوں کی اہمیت کے پیش نظر ڈویژن اور اضلاع کی سطح پر ٹاسک فور س قائم کئے ہیں جو صرف انٹیلی جنس اور انوسٹی گیشن کا کام کریں گے صوبے میں امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے اعتماد میں لینے پر قائد حزب اختلاف اور دیگر پارلیمانی لیڈران نے وزیر اعلیٰ کا شکریہ اداکیا اوراس سلسلے میں اُٹھائے گئے اقدامات اور پولیس کی مجموعی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اپنی طرف سے صوبائی حکومت کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایاجس پر وزیر اعلیٰ نے اپوزیشن جماعتوں کو یقین دلایا کہ وقتافوقتاً اس طرح کی نشستوں کے ذریعے حزب اختلاف کو امن وا مان کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا جاتا رہے گا ۔