قومی اسمبلی ،پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ نے وفاقی سرکاری ملازمین کو بلا سود قرضے فراہم کرنے کی قرارداد کی مخالفت کردی

منگل 4 مارچ 2014 17:11

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 4مارچ 2014ء) قومی اسمبلی میں منگل کو پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے وفاقی سرکاری ملازمین کو بلا سود قرضے فراہم کرنے کی قرارداد کی مخالفت کردی تاہم ارکان کی طرف سے سیر حاصل بحث کے بعد پارلیمانی سیکرٹری نے موقف اختیار کیا کہ حکومت پہلے ہی سرکاری ملازمین کو بلا سود قرضے فراہم کررہی ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی ہے ، پارلیمانی سیکرٹری خزانہ کے اس موقف پر سپیکر سردار ایاز صادق نے رولنگ دی کہ اگر اس پر پہلے ہی عملدرآمد ہو رہا ہے تو قرارداد پر ووٹنگ کی ضرورت نہیں اس سے قبل جماعت اسلامی کی صاحبزادہ محمد یعقوب ، صاحبزادہ طارق اللہ ، شیر اکبر خان اور عائشہ سید نے قرارداد پیش کی کہ اس ایوان کی رائے ہے، حکومت وفاقی سرکاری ملازمین کو بلا سود قرضہ جات فراہم کرنے کیلئے اقدامات کرے، سپیکر نے اس پر حکومتی موقف بیان کرنے کیلئے پارلیمانی سیکرٹیر برائے وزارت خزانہ رانا محمد افضل خان سے استفسار کیا جنہوں نے قرارداد کی مخالفت کردی جس پر سپیکر نے قرارداد پر بحث شروع کروا دی بحث کا آغاز کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے صاحبزادہ محمد یعقوب نے کہا کہ وفاقی ملازمین کو اگر بلا سود قرضہ جات فراہم کئے جائیں تو بہتر ہے، وفاقی ملازمین غریب لوگ ہیں ان کا خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ بحیثیت مسلمان ہمیں سود سے منع کیا گیا ہے اور سودی لین دین کو نبی کریمﷺ نے اللہ تعالی سے جنگ قرار دیا ہے حکومت کو اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس قرارداد کو سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کیا جائے، جماعت اسلامی کے شیر اکبر خان نے کہا کہ حکومت جو قرضے سود پر دے رہی ہے وہ قرآن وحدیث، آئین اور قانون کیخلاف ہیں، اللہ تعالی نے قرآن پاک میں سود کو حرام قرار دیا ہے، وزیراعظم یوتھ سکیم کے تحت نوجوانوں کو جو قرضے دیئے جارہے ہیں کیا وہ آئین کے مطابق ہیں اس حوالے سے سپیکر رولنگ دیں نوجوانوں کو سود کے بغیر قرضے دیئے جائیں ۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی کی عائشہ سید نے کہا کہ ہم مجموعی طور پرچاہتے ہیں کہ ملک بھر میں قرضے بلا سود دیئے جائیں تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالی نے کئی قوموں کو ترقی یافتہ ہونے کے باوجود مٹا ڈالا اس کی وجوہات بھی سامنے ہیں سود تباہی کی طرف لے جانیوالی چیز ہے جو اللہ کے عذاب کو دعوت دیتی ہے وفاق میں کام کرنیوالی خواتین کو بلا سود قرضے دیئے جائیں جو بے پناہ مشکلات کا شکار ہیں، آزاد رکن جمشید دستی نے کہا کہ اسلام آباد بے وفاؤں کا شہر ہے یہ ملک کا سب سے مہنگا شہر ہے ، سرکاری ملازمین غریب لوگ ہیں جن کا گزارہ مشکل سے ہوتا ہے ۔

رسول پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’سود اللہ تعالی سے جنگ ہے‘ اگر ہم ملک کو سود سے پاک کر دیں تو ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا اور ہم دنیا پر حکمرانی کرینگے ۔ مسلم لیگ (ن) کے قیصر احمد شیخ نے کہا کہ ہمارے ملک میں مہنگائی دس فیصد سالانہ ہے پاکستان روپے کی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے بلاشبہ سود کے حوالے سے قرآنی احکامات سخت ہیں سرکاری ملازمین کو قرضے ضرور ملنے چاہئیں لیکن اس کا لائحہ عمل ہونا چاہئے یہ ممکن نہیں کہ کسی کوایک لاکھ روپے دیئے جائیں اور دس سال بعد ایک لاکھ روپے ہی واپس لئے جائیں ، بغیر قرضے کے پاکستان میں کوئی بڑا منصوبہ نہیں لگ سکتا ہمارا آئین اسلامی بنیاد پر ہے علمائے کرام سود کے حوالے سے قراننی احکامات کی تشریح کریں، جے یو آئی ف کے قاری محمد یوسف نے کہا کہ ہمارے آئین میں ہے کہ قرآن وسنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوگی کوئی بھی قرض انتہائی مجبوری کے عالم میں لیتا ہے سود حرام ہے اور اللہ تعالی سے کھلی جنگ ہے۔

تحریک انصاف کے علی محمد نے کہا کہ ملک میں فوری طور پر فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ نافذ کیا جائے پاکستان اسلامی ملک ہے اور آئین کے مطابق یہاں پر قرآن وسنت کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا، پاکستان میں سودی نظام ختم کیا جائے۔ جے یو آئی ف کی نعیمہ کشور نے کہا کہ اس سے پہلے یہ ایوان سودی نظام کے خاتمے کی قرارداد منظور کرچکا ہے اور آج حکومت بلا سود قرضے دینے کی قرارداد کی مخالفت کررہی ہے یورپ میں بہت سے ملک بلا سود بینکاری کی طرف جارہے ہیں حکومت پاکستان ملک سے سودی نظام کا مکمل خاتمہ کرے۔

رائے حسن نواز نے کہا کہ مہنگائی کے اس دور میں ملازمین کو دو وقت کی روٹی ملنا مشکل ہے ، حکومت کی معاشی پالیسیوں کے باعث یہ نظر نہیں آتا کہ لوگ تنخواہ میں گزارہ کرسکیں لہذا حکومت کو بلا سود قرضے دینے چاہئیں۔ افتخار الدین نے کہا کہ سود کے بارے میں قرآن اور حدیث میں واضح احکامات ہیں برطانیو اور مغربی بینکوں نے سود سے پاک قرضوں کی سکیمیں شروع کر رکھی ہیں سود سے پاک قرضوں سے غریب لوگوں کی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ بہت سے ارکان نے سود کے بارے میں قرآنی احکامات بیان کئے ہیں ایک سے پندرہ گریڈ کے ملازمین سے سائیکل ایڈوانس اور دیگر مدوں سے سود نہیں لیا جاتا جو لوگ اپنے پراوینڈنٹ فنڈ پر سود لیتے ہیں ان سے سود لیا جاتا ہے اس قرارداد کی مخالفت اس لئے کی کہ وفاقی ملازمین کی بات کی گئی ہے صوبائی ملازمین کی بات شالم نہیں ، حکومت ایک گریڈ سے 22 کے ملازمین سے پہلے ہی کوئی سود نہیں لے رہی، انہوں نے رکن اسمبلی قیصر شیخ کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی شخص کو ایک تولہ سونے کی مالیت کے برابر قرضہ دیا جائے اور بعد میں وہی رقم واپس لی جائے تو یہ دوسرے لوگوں کیساتھ زیادتی ہوگی، قرضے کی فراہمی کیلئے دستاویزات اور دیگر امور پر اخراجات آتے ہیں۔

سپیکر نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر اس کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ سرکاری ملازمین سے پہلے ہی کوئی سود نہیں لیا جارہا اور سب کو بغیر سود کے قرضہ مل رہا ہے، سپیکر نے رولنگ دی کہ اگر اس پر پہلے سے ہی عملدرآمد ہو رہا ہے تو اس قرارداد پر ووٹنگ کی ضرورت نہیں۔