مردم شماری ستمبر و اکتوبر 2014 یا مارچ 2015 میں کرائی جائے، چیف شماریات، پاکستان بیورو برائے شماریات کو کم از کم آٹھ ماہ چاہئیں تاکہ مردم شماری کے لئے تمام مواد اور منصوبہ بندی ہو سکے ، قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں نادرا اور وزارت داخلہ کے حکام کو طلب کر لیا

جمعرات 27 فروری 2014 20:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26 فروری ۔2014ء) پاکستان بیورو برائے شماریات کے چیف شماریات نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ،آمدن معاشی امور، شماریات اور پرایئوٹائیشن کو آگاہ کیاکہ حکومت کو تجویز دی ہے کہ مردم شماری ستمبر و اکتوبر 2014 یا مارچ 2015 میں کرائی جائے پاکستان بیورو برائے شماریات کو کم از کم آٹھ ماہ چاہئیں تاکہ مردم شماری کے لئے تمام مواد اور منصوبہ بندی کر سکے یہ مردم شماری 1998 کی مردم شماری کی طرح سو فیصد فوج کی نگرانی میں کی جائے گی پاکستان میں اب تک پانچ مردم شماری ہو چکی ہیں اور 1981 کی مردم شماری پاکستان کی پہلی ریگولر مردم شماری تھی ۔

تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ،آمدن معاشی امور، شماریات اور پرایئوٹائیشن کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی مسز نسرین جلیل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر ز الیاس احمد بلور، عثمان سیف اللہ خان، اسلام الدین شیخ ، سردار فتح محمد محمد حسنی ، سیدہ صغراں امام اور محمد ہمایوں خان مندوخیل کے علاوہ وفاقی سیکرٹری برائے خزانہ وقار مسعود ،سیکرٹری شماریات رخسانہ شاہین ،چیف شماریات آصف باجوہ ،جوائنٹ سیکرٹری شماریات ثمینہ حسن اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان بیورو برائے شماریات کے کردار ،ذمہ داریاں ،کارکردگی ،مختلف سیکٹرز سے مواد حاصل کرنے کے طریقہ کار اور بین الااقومی تنظیمیں جو اقوام متحدہ تنظیم کے ساتھ کام کر رہی ہیں اُن کا اس ادارے کی مالی معاونت اور تعاون کے معاملات اورپاکستان میں مردم شماری کے حوالے سے پاپولیشن سینسزز کے کردار اور ذمہ داری بارے تفصیل سے بحث کی گی۔

چیف شماریات آصف باجوہ نے کمیٹی کو ادارے فنگشنز، کارکردگی، ذمہ داریوں اور مردم شماری کے طریقہ کار کے معاملات پر تفصیل سے آگاہ کر تے ہوئے بتایا کہ یہ ادارہ 2011 سے پہلے ایک اٹانومس ادرے کے طور پر کام کرتا تھا اس کے چار ونگز تھے اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے 2011 میں شفارش کی کہ چاروں ونگز کو اکٹھا کرکے ایک ادارہ بنایا جائے جو شماریات سے متعلقہ معاملات کو ڈیل کرے اُن ونگز میں فیڈرل بیورو برائے شماریات ، پاپولیشن سینسنز آرگنائزیشن ، ایگرکلچر آرگنائزیشن اور ٹیکنکل ونگز شامل تھیں ادارے کا بنیادی کام ایسا نظام مرتب کرنا تھا جو حکومت سے غیر جانبدارانہ رہتے ہوئے حقیقی معلومات و مواد ملک و قوم کے سامنے رکھ سکے انہوں نے کہا اس ادارے کا کنٹرول ایک گورننگ کونسل کرتی ہے جس کے چیئرمین وفاقی وزیر برائے خزانہ ہوتے ہیں اس کے کل 11 ممبران ہیں جن میں سے ذیادہ کا تعلق پرایئوٹ سکیٹر سے ہے قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ ممبران کو صوبائی کوٹے کے مطابق کونسل میں شامل کریں۔

رکن کمیٹی سینیٹر ہمایوں خان مندو خیل نے کہا کہ جب چیئرمین ہی وفاقی حکومت کا ہوتا ہے تو ادارہ حکومت سے غیر جانبدارانہ حکمت عملی کیسے اپنا سکتا ہے سینیٹر صغراں امام نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے وسیع مفاد کی خاطر اصل حقائق تبدیل کر لئے جاتے ہیں لہذا چیئرمین حکومتی نمائندوں میں سے نہ لیا جائے جس پر رکن کمیٹی سینیٹر اسلا م الدین شیخ نے کہا کہ اسکے لئے پھر آئین کو تبدیل کرنا پڑے گا سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ کونسل کا کام منصوبے بنا کر دینا ،بجٹ بنا کر دینا اور دیگر اعدادوشمار اکٹھا کرنا ہے اور وزیر خزانہ کی مداخلت کم ہی ہوتی ہے سینیٹر الیاس احمد بلور نے کہا کہ کمیٹی کو آئندہ کے اجلاس میں آگاہ کیا جائے کہ 1990 میں کتنی لیبر فورس تھی اور اب کتنی ہے سینیٹر صغراں امام نے کہا کہ 2011 میں مردم شماری کے لئے پرائمری ڈیٹا اکٹھا کیا گیا تھا اور اُس پر بے شمار قومی خزانہ خرچ ہوا مگر تمام حقائق اور معلومات عوام کے سامنے نہیں لائی گئیں اب نئی مردم شماری کے لئے بہتر ہو گا کہ ناکام کوشش کے مواد کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جائے ۔

مردم شماری کے حوالے سے چیف شماریات آصف باجوہ نے کہا کہ پورے پاکستان کو مختلف بلاکس میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر بلاک میں 200 سے 250 گھر شامل ہوتے ہیں ابھی تک پاکستان کے کل بلاکس 152465 ہیں ان میں سے خیبر پختونخوا کے 19131 ،فاٹا کے3799 ، پنجاب کے77829 ، سندھ کے36895 ، بلوچستان کے 9683 ، آزاد کشمیر کے3966 ، گلگت بلتستان کے1212 بلاکس ہیں رکن کمیٹی سینیٹر سردار فتح محمد محمد حسنی نے کہا کہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی غیر ملکیوں پر مشتمل ہوچکی ہے پچھلے کئی سالوں سے سن رہے ہیں کہ افغانی واپس جارہے ہیں مگر اُن کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے بلوچستا ن میں میرے گھر سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی رہ رہے ہیں اور اُن کے پاس شناختی کارڈ بھی پاکستان کے بنے ہوئے ہیں قائمہ کمیٹی نے متفقہ طورپر غیر ملکی پناہ گزیروں کا ڈیٹا طلب کرتے ہوئے حکومت سے سفارش کی کہ اُن کی رجسٹریشن کروائی جائے اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھا جائے جس پر چیف شماریات آصف باجوہ نے کمیٹی کو بتا یا کہ غیر ملکی پناہ گزیروں کا ڈیٹا نادرا کے پاس ہوتا ہے جس پر قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں نارا اور وزارت داخلہ کے حکام کو طلب کر لیا ۔

غیر ملکی امداد کے حوالے سے انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ 2005 سے اب تک اقو ام متحدہ نے 4.88 ملین ڈالر فراہم کیے ہیں جس کی مدد سے پاکستان کے تین بڑے شہروں میں دفاتر قائم کیے ہیں اور ہر دفتر میں 25 کے قریب کمپیوٹر اور لیب بنائی گئیں ہیں ان دفاتر میں انٹیلجنس کریکٹر ریڈر بھی نصب کی گئیں ہیں جن میں فارم داخل کرتے ہی معلومات کمپیوٹر پر محفوظ ہو جاتی ہیں اور اس وقت ہمارے پاس 30 ملین فام رائے شماری کے لئے پڑے ہوئے ہیں اور چٹھی رائے شماری کے لئے صوبائی حکومتوں سے ہمیں کم از کم دولاکھ ملازمین کی خدمات درکار ہونگی ۔

ہمارے کل دفاتر 35 ہیں اور ہمارے ملازمین کی تعداد 3426 ہے انہوں نے کمیٹی سے سفارش کی کہ پی ایس ایل ایم منصوبہ 2004 کے لئے 264 ملازمین کنٹریکٹ پر لئے تھے کیبنٹ ڈویژن سے سفارش کی تھی کہ ان کو ریگولر کر دیا جائے مگر انہوں نے 2015 کے بعدصورتحال کا جائزہ لے کر معاملے کو دیکھیں گے کا کہا ہے کمیٹی نے حکومت سے ان ملازمین کو ریگولر کرنے کی سفارش کر دی ۔