کراچی میں بھتہ خوری اور اغوا کی وارداتوں میں اضافہ ہوا، شاہد حیات کا سپریم کورٹ میں اعتراف

بدھ 26 فروری 2014 17:05

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 26فروری 2014ء) ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات نے شہر میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ کراچی میں رجسٹری میں پیش کردی جس کے مطابق شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔کراچی رجسٹری میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے بدامنی کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران کراچی پولیس چیف شاہد حیات کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ ٹارگٹڈ آپریشن ہے، جن کے خلاف آپریشن کیا جارہا وہ ردعمل کے طور پر جوابی حملے کررہے ہیں اس کے علاوہ شہر میں بھتہ خوری کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے جس پر جلد قابو پالیں گے، رپورٹ کے مطابق ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہونے کے بعد سے 94 پولیس اہل کاروں کو قتل کیا جاچکا ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق ستمبر سے اب تک 213 اشتہاریوں سمیت 601 مطلوب ملزمان کو حراست میں لیا گیا اس دوران ٹارگٹ کلنگ میں 56 فیصد کمی، قتل کی وارداتوں میں 30 فیصد جب کہ اسٹریٹ کرائم میں بھی 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کےمقدمات میں 153 ملزم گرفتار ہوئے ہیں جن میں کسی کو بھی ضمانت پر رہا نہیں کیا گیا۔ اغوا برائے تاوان میں ملوث 71 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، اغوا برائے تاوان کے کیسز میں گرفتار 67 ملزم جیل میں جب کہ 4 پولیس کی تحویل میں ہیں، عدالت سے اغوا برائے تاوان کے بھی کسی ملزم کو ضمانت نہیں ملی۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی دوبارہ تعیناتی سے متعلق رپورٹ بھی پیش کی جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ عباس ٹاؤن میں 50 شہری جاں بحق ہوئے، راؤ انوار کے خلاف مجرمانہ غفلت کا مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا؟ راؤ انوار کو ملیر کے علاوہ کہیں اور تعینات کیوں نہیں کیا جاتا؟ عدالت نے ان کی تعیناتی کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔

زمینوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو انفرادی طور پر زمین الاٹ کرنے کا اختیار نہیں۔ 6 ماہ میں 7 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ ہو چکا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ زمینوں پر قبضے کے 147 کیس درج کئے گئے جن میں 63 سی کلاس تھے، سی کلاس مقدمات وہ ہوتے ہیں جس میں زمین کی جگہ کا تعین نہ ہو۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ آپ کو نہیں پتہ کہ زمین ان ٹریسڈ نہیں ہوتی، عدالت نے سندھ حکومت سے 2 ہفتوں میں الاٹ کی گئی تمام زمینوں کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔

متعلقہ عنوان :