ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹی ٹیوٹ اور فنڈ صوبوں کے حوالے کیا جائے،سندھ کا وفاق سے مطالبہ ،حکومت سندھ کی کوشش ہے اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کئے گئے سارے اداروں کا کنٹرول حاصل کیا جائے،ڈاکٹر سکندر میندھرو کا ضمنی سوال پر جواب

منگل 25 فروری 2014 20:18

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔25 فروری ۔2014ء) سندھ نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی) اور اس کا فنڈ صوبوں کے حوالے کیا جائے۔ اس فنڈ میں 43 فیصد حصہ سندھ کا ہے۔ اس بات کا انکشاف منگل کو سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو نے متعدد ارکان کے ضمنی سوالوں پر بتایا۔

وقفہ سوالات محکمہ محنت سے متعلق تھا۔ ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ سندھ حکومت کی درخواست پر ای او بی آئی کا معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کے گذشتہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا تھا لیکن اس پر غور نہیں کیا جاسکا۔ حکومت سندھ کی یہ کوشش ہے کہ ان سارے اداروں کا کنٹرول حاصل کیا جائے، جو 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

صوبوں کو منتقل کیے گئے تعلیم اور صحت سے متعلق امور کا مسئلہ بھی طے نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان امور کا فیصلہ کرانے کے لئے بھی سندھ حکومت کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ورکرز ویلفئیر بورڈ کی لیبر کالونیوں میں غیر قانونی قابضین کو ہٹانے کے لیے حکمت عملی تیار کی جارہی ہے تاکہ یہ فلیٹس حقیقی الاٹیز کے حوالے کیے جاسکیں۔

انہوں نے بتایا کہ ورکرز ویلفئیر بورڈ لیبر کالونی حیدرآباد میں 1024 فلیٹس کی تعمیر کے لیے 14 دسمبر 2012 کو اخبارات میں ٹینڈرز دئیے گئے تھے لیکن ابھی تک کسی ٹھیکیدار کو تعمیر کا کام نہیں سونپا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں گلشن معمار اور نادرن بائی پاس میں 3900 فلیٹس صنعتی ورکرز کو الاٹ کیے گئے تھے۔ ان فلیٹس میں سیلاب متاثرین کو عارضی رہائش دی گئی تھی لیکن اب وہ فلیٹس چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔

کچھ لوگ دوسروں کو قبضہ دے کر وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ ان لوگوں سے فلیٹس خالی کرانے کے لیے حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لیے محکمہ محنت کے انسپکٹرز کے سالانہ فیکٹریز اور دکانوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ شکایات پر بھی چھاپے مارتے ہیں۔اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں سے مشقت کی جاتی ہے۔

اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 کی خلاف ورزی پر 66 مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے 36 کا فیصلہ کیا گیا اور 18350 روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔ ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ مئی 2011 سے مئی 2012 تک 1594 ورکرز کی بیٹیوں کی شادیوں کے لیے فی کس 70 ہزار روپے کے حساب سے 11 کروڑ 15 لاکھ روپے دئیے گئے۔ موجودہ حکومت نے جہیز فنڈ کی مد میں رقم 70 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ تک کردی ہے۔

متعلقہ عنوان :