چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے پانچ سو علماء و مشائخ کے دستخطوں کے ساتھ وزیراعظم کے نام خط ارسال کر دیا ،حکومت ریاست مخالف دہشت گردوں سے مذاکرات ختم کرنے کا دوٹوک اعلان کرے، ریاست کے باغیوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا جائے،دہشت گردوں سے مذاکرات ختم کر کے آپریشن شروع کرنے کا دوٹوک اعلان نہ کیا گیا تو ملک گیر احتجاج ،تمام شہروں میں دھرنے دینگے،پاک فوج کو دہشتگردی کے خاتمے کیلئے فری ہینڈ دیا جائے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر متفقہ نیشنل سکیورٹی پالیسی وضع کی جائے‘ خط میں مطالبہ

ہفتہ 22 فروری 2014 22:38

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22 فروری ۔2014ء) سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے پانچ سو سے زائد علماء و مشائخ کے دستخطوں کے ساتھ وزیراعظم پاکستان کو خصوصی خط ارسال کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت ریاست مخالف دہشت گردوں سے مذاکرات ختم کرنے کا دوٹوک اعلان کرے اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے ریاست کے باغیوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا فیصلہ کیا جائے۔

پاک فوج کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فری ہینڈ دیا جائے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر متفقہ نیشنل سکیورٹی پالیسی وضع کی جائے۔ پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے دہشت گردوں کے حامیوں، ہمدردوں اور سرپرستوں کو ریاستی گرفت میں لایا جائے اور پورے ملک میں ریاستی رٹ قائم کرنے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کیے جائیں۔

(جاری ہے)

پچاس ہزار شہداء کے قاتلوں سے مذاکرات شریعت اور آئین کے منافی ہیں۔

پاک فوج، ایف سی اور پولیس کے افسروں اور جوانوں کے قتل کا بدلہ لینا حکومت پر قرض اور فرض ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان پر شرعی مقدمہ چلایا جائے اور طالبان سے پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قتل کا قصاص طلب کیا جائے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی مصلحتوں اور بزدلی کی وجہ سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور مذاکرات کے اعلان کے بعد دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔

اس لیے اب حکومت گومگو کی پالیسی چھوڑ کر پاکستان بچانے کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھائے۔ حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ کے آئینی تقاضے پورے کرے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو نتیجہ خیز بنایا جائے اور کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے کیونکہ ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے دہشت گردوں کو سبق سکھانا ضروری ہو گیا ہے اور ملکی سلامتی سے کھیلنے والے باغیوں اور انتہاپسندوں کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔

فوجیوں کے گلے کاٹنے والے کسی رحم اور رعایت کے مستحق نہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث مکتبہٴ فکر کو ریاستی سطح پر غیرمعمولی اہمیت دے کر دوسرے مکاتب ِ فکر میں احساسِ محرومی پیدا کیا جا رہا ہے۔ ریاستی ادارے ملک کے غداروں اور وفاداروں کو پہچانیں۔ مساجد، مدارس، مزارات، ہسپتالوں، مارکیٹوں، جنازوں، پولیو ورکرز، غیرملکی کھلاڑیوں اور سیاحوں پر حملے کرنے والے گمراہ ہی نہیں ملک و اسلام دشمن بھی ہیں۔

ریاست کے باغیوں کو پاکستان کے بیٹے قرار دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ غیرملکی ایجنسیوں کے نیٹ ورک کا صفایا کیا جائے اور پاکستان میں بیرونی مداخلت روکی جائے۔ طالبان کے ایک تہائی کراچی پر کنٹرول اور اسلام آباد میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی اطلاعات تشویشناک ہیں۔ طالبان کو سرکاری طور پر غدارانِ پاکستان قرار دیا جائے اور ریاستی اداروں کو طالبان نواز عناصر سے پاک کیا جائے۔

طالبان ریاست کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ دہشت گرد مذاکرات کے ذریعے صرف وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حکومت کو مذاکرات میں الجھا کر خود دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ دہشت گردوں سے مذاکرات ختم کر کے آپریشن شروع کرنے کا دوٹوک اعلان نہ کیا گیا تو ملک گیر احتجاج کی کال دی جائے گی اور تمام شہروں میں لامحدود مدت کے لیے دھرنے دیں گے۔ اب امن کے لیے جنگ ضروری ہو چکی ہے۔

مذاکرات اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ مذاکرات سے امیدیں وابستہ کرنا بیوقوفی ہے۔ حکومت دہشت گردوں کو شہید قرار دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ حکومت کی کمزوری کی وجہ سے دہشت گردوں اور مجرموں کے دلوں سے سزا کا خوف ختم ہو گیا ہے اس لیے حکومت دہشت گردوں کو سنائی گئی سزاؤں پر عملدرآمد یقینی بنائے اور طالبان سے شرعی قانون کے تحت خودکش حملوں میں شہید ہونے والوں کے جان و مال کا حساب مانگا جائے۔

ملک میں شریعت نافذ کی جائے کیونکہ شریعت کے مکمل نفاذ سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ شریعت نافذ ہو گئی تو طالبان سزاؤں سے بچ نہیں سکیں گے۔ طالبان شریعت کے حامی نہیں باغی ہیں۔ طالبانی شریعت قرآن و سنّت سے متصادم ہے اور نفاذِ شریعت کے لیے بندوق کا استعمال خلافِ اسلام ہے۔