سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان کا زبردست احتجاج اور شورشرابہ ، ڈپٹی اسپیکر نے ایک مرتبہ اجلاس دس منٹ ، دوسری مرتبہ اجلاس منگل تک ملتوی کردیا ،سندھ میں اقلیتی برادری کی خواتین کو زبردستی مذہب تبدیل کرایا جارہا ہے ۔ اقلیتوں کی جائیدادوں پر قبضہ کیا جارہا ہے ، دیوان چاولہ ،جذباتی انداز میں تقریر کرنے پر ڈپٹی اسپیکر نے دیوان چاولہ کا مائیک بند کردیا، ایم کیو ایم کے ارکان کا زبردست احتجاج اور نعرے بازی، اسپیکر کی تبدیلی کا مطالبہ

پیر 17 فروری 2014 22:43

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17 فروری ۔2014ء) سندھ اسمبلی میں پیر کو متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے ارکان نے زبردست احتجاج اور شورشرابہ کیا ۔ شور شرابے کے باعث ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے ایک مرتبہ اجلاس 10 منٹ کے لیے ملتوی کردیا جبکہ دوسری مرتبہ شور شرابے میں اسپیکر نے اجلاس منگل کی صبح تک ملتوی کردیا ۔ ایم کیوایم کے ارکان نے احتجاج اس وقت شروع کیا جب ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے ایم کیو ایم کے اقلیتی رکن دیوان چند چاولہ کا مائیک بندکردیا ، جو اپنے توجہ دلاوٴ نوٹس پر بات کر رہے تھے ۔

ان کا توجہ دلاوٴ نوٹس صوبے میں اقلیتی برادری کے افراد کے اغواء کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے متعلق تھا ۔ دیوان چند چاولہ نے کہاکہ سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

اسلام امن کا مذہب ہے ۔ وہ کسی کے ساتھ زیادتی اور ظلم کی حمایت نہیں کرتا ۔ سندھ میں اقلیتی برادری کی خواتین کو زبردستی مذہب تبدیل کرایا جارہا ہے ۔ اقلیتوں کی جائیدادوں پر قبضہ کیا جارہا ہے ۔

انہیں اغواء کیا جارہا ہے اور ان پر زندگی تنگ کردی گئی ہے ۔ ڈپٹی اسپیکر نے ان سے کہا کہ وہ اپنی بات کہہ چکے ہیں۔ توجہ دلائے نوٹس پر تقریر نہیں کی جاتی لیکن دیوان چند چاولہ جذباتی اندازمیں مسلسل بولتے رہے۔ ڈپٹی اسپیکر نے ان کا مائیک بندکرادیااورکہاکہ انہیں پانی پلاوٴ۔ اس طرح ایم کیو ایم کے ارکان نے زبردست احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔

شور شرابے میں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس 10 منٹ کے لیے ملتوی کردیا۔ ایم کیو ایم کے ارکان ”غنڈہ گردی نہیں چلے گی، ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے، ڈپٹی اسپیکر کو تبدیل کرو“ اور دیگر نعرے لگاتے رہے۔ 7 منٹ کے بعد اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں دوبارہ شروع ہوا۔ ایجنڈے کی کارروائی ختم ہوئی تو ایم کیو ایم کے رکن خواجہ اظہار الحسن نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ وقفہ سوالات کے دوران وزیرخوراک جام مہتاب حسین ڈاھر نے ایم کیو ایم کے خاتون رکن ارم عظیم فاروق کے بارے میں نازیبا ریمارکس دئیے۔

وزیربلدیات واطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ جام مہتاب ایسے ریمارکس نہیں دے سکتے اور جو بات مائیک پر نہ بولی جائے، وہ ریکارڈ کا حصہ نہیں ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم نے بھی خاتون ڈپٹی اسپیکر کے خلاف ”غنڈہ گردی نہیں چلے گی“ کے نعرے لگائے۔ جام مہتاب نے کہا کہ میں نے ایسے کوئی ریمارکس نہیں دئیے۔ ایم کیو ایم کے ارکان کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے خود سنے ہیں۔

شور شرابے میں اسپیکر نے اجلاس منگل کی صبح تک ملتوی کردیا۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے سنیئر پارلیمنٹرین اور وزیر جام مہتاب ڈہر کی جانب سے ایوان میں دئیے جانے والے وضاحتی بیان کے بعد ہنگامہ آرائی کرنا ایوان کے ماحول کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ خاتون ڈپٹی اسپیکر کے خلاف غنڈہ گردی اور دیگر نعرے لگانا انتہائی شرمناک ہے۔

دیوان چند نے جس ایشو پر بات کی، وہ درست ہے تاہم ان کا رویہ پارلیمانی نہیں تھا۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اسمبلی کے قوانین کے مطابق مائیک کے علاوہ کوئی بات کی جائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ آج ایوان میں ایم کیو ایم کے ارکان کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف غنڈہ گردی اور دیگر نعرے لگا کر ایوان کے تقدس کو پامال کیاگیا ہے اور ایک غلط روایت ڈالی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک خاتون اسپیکر کا مان اور رتبہ ہوتا ہے۔ اس کو اس طرح کی نعرے بازی کرکے پامال کرنا بھی کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے اقلیتی رکن دیوان چند چاولہ نے فاتحہ خوانی کے وقت بھی تقریر کی اور بعد ازاں توجہ دلاؤ نوٹس پر جہاں تقریر نہیں ہوتی تقریر کرنے کی کوشش کی، جس پر ڈپٹی اسپیکر نے انہیں روکا اور اس پر ایم کیو ایم کے ارکان نے ہنگامہ آرائی کرکے ماحول کو خراب کیا۔

انہوں نے کہا کہ دیوان چند کا مسئلہ جائز ہے اور حکومت اس پر اقدامات بھی کررہی ہے لیکن ان کا ایوان میں اس مسئلے کو پیش کرنے کا طریقہ غلط تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ یا امن و امان کی بحالی کے اداروں کی جانب سے ان کا نام دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ پر ہونے اور ان کی جان کو خطرے کے حوالے سے کوئی آگاہی نہیں دی ہے اور میرا ایمان ہے کہ جو رات قبر میں لکھی ہوئی ہے وہ آنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی سے مختلف سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو اندرون سندھ کی جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے اور مزید ملزمان کو بھی منتقل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور سندھ حکومت کے فیصلوں کی روشنی میں ایسا کیا جارہا ہے اور ایسی اطلاعات ملی تھی کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی میں وہ عناصر ملوث ہیں جنہیں جیلوں سے آپریٹ کیا جارہا ہے۔

ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے پیر کو ایوان میں اسپیکر کے منصب کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے آمرانہ رویہ اختیار کیا۔ اگر ان کا رویہ یہی رہا تو ہم مجبوراً اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے۔ جام مہتاب ڈہر کی جانب سے خاتون رکن پر طنزیہ جملوں سے ان کا استحقاق مجروع ہوا ہے لیکن افسوس کہ جام مہتاب ڈہر سمیر دیگر وزراء نے اپنی غلطی ماننے کی بجائے ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا۔

وہ پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہمارے اقلیتی رکن دیوان چند چاولہ نے ہندوں لڑکیوں کی جبری شادی اور اس پر ہندو برادری کے تحفظات پر توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کی تو ڈپٹی اسپیکر نے حسب روایت اور اپنے مخصوص انداز میں انہیں نہ صرف بات کرنے سے روکا اور ہتک آمیز الفاظ کا استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک ایسے سنجیدہ موضوع پر ڈپٹی اسپیکر کا پارٹی بن جانا اور ہتک آمیز الفاظ کا استعمال ارکان اسمبلی کے استحقاق کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور اس پر احتجاج کرنا ہمارا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ جب وہ اسپیکر کے منصب ہر ہوں تووہ کسی ایک پارٹی کی نہیں بلکہ پورے ایوان کی اسپیکر ہوتی ہیں اور انہیں تمام ارکان کو برابری کی سطح پر رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ڈپٹی اسپیکر نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ہم مجبوراً آنے والے اجلاس میں ان کی اسپیکر ہونے کی موجودگی میں بائیکاٹ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو موجودہ اسپیکر اور سابقہ اسپیکر سے سیکھنا چاہیے۔ انہوں نے ایوان میں صوبائی وزیر جام مہتاب ڈہر کی جانب سے خاتون رکن سمیتا افضال پر طنز کرنے کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ ایک سنئیر پارلیمنٹرین کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی خاتون رکن پر طنز کریں اور اس کے بعد اس کے اعتراف کرنے کی بجائے ڈھٹائی سے اس کی مخالفت کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم خواتین چاہے اس کا تعلق ایم کیو ایم سے ہو یا کسی اور جماعت یا پارٹی سے احترام کرتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ تمام خواتین کا احترام کیا جائے۔