پاکستانی سلیکٹر بیچارے ہومیو پیتھک گولیاں ہیں فائدہ نہ ہو تو نقصان بھی نہیں پہنچاتیں ، برطانوی میڈیا ،سلیکشن کے اصل فیصلے کپتان اور کوچ کرتے ہیں ، چیئر مین حضرات بھی اثر انداز ہوتے ہیں ، وکٹ کیپر کامران اکمل کی ٹیم میں واپسی ایک بار پھر سب سے زیادہ حیرانی کا سبب بنی ہے ،سلیکشن کار کر دگی کی بنیاد پر نہیں چہرہ دیکھ کر کی گئی ہے ،رپورٹ

پیر 17 فروری 2014 21:49

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17 فروری ۔2014ء) برطانوی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سلیکٹر بیچارے ہومیو پیتھک گولیاں ہیں فائدہ نہ ہو تو نقصان بھی نہیں پہنچاتیں ، سلیکشن کے اصل فیصلے کپتان اور کوچ کرتے ہیں ، چیئر مین حضرات بھی اثر انداز ہوتے ہیں ، وکٹ کیپر کامران اکمل کی ٹیم میں واپسی ایک بار پھر سب سے زیادہ حیرانی کا سبب بنی ہے ،سلیکشن کار کر دگی کی بنیاد پر نہیں چہرہ دیکھ کر کی گئی ہے ۔

پیر کو برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ سلیکشن کے اصل فیصلے کپتان اور کوچ کرتے ہیں اور کرکٹ بورڈ کے چیئرمین حضرات بھی ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔رہے سلیکٹرز تو وہ بیچارے ہومیوپیتھک کی گولیاں ہیں جو فائدہ نہیں پہنچاتیں تو نقصان دہ بھی نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

وکٹ کیپر بیٹسمین کامران اکمل کی پاکستانی ٹیم میں واپسی ایک بار پھر سب سے زیادہ حیرانی کا سبب بنی ہے جنہیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔

کامران اکمل کو سلیکٹروں نے اس دلیل کے ساتھ ٹیم میں دوبارہ جگہ دی ہے کہ وہ اوپنر ہیں اور ضرورت پڑنے پر کسی بھی نمبر پر خود کو ایڈجسٹ کرسکتے ہیں تاہم درحقیقت یہ سلیکشن چہرہ دیکھ کر ضرور کیا گیا ہے مگر کارکردگی ہرگز نہیں دیکھی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق سیزن میں کامران اکمل نے فرسٹ کلاس میچوں میں 641 اور ون ڈے کپ میں 263 رنز سکور کیے تاہم جس فارمیٹ یعنی ٹی ٹوئنٹی میں ان کا سلیکشن ہوا ہے اس میں ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔

کامران اکمل نے ڈیپارٹمنٹس کے ٹی ٹوئنٹی کپ کے تین میچوں میں صرف 22 رنز بنائے ہیں جس میں بہترین انفرادی سکور 17 رنز ہے۔ اسی طرح ریجن کے ٹی ٹوئنٹی کپ میں ان کے تین میچوں میں بنائے گئے رنز کی تعداد صرف 58 ہے جس میں بہترین انفرادی سکور صرف 30 رنز ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کارکردگی کامران اکمل کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شمولیت کو حق بجانب ثابت کرتی ہے؟رپورٹ کے مطابق ماضی میں بھی کھلاڑیوں کو چار روزہ میچوں کی کارکردگی پر محدود اوورز کی ٹیم میں اور محدود اوورز کی کارکردگی پر ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیا جاتا رہا ہے جس کے نتائج مایوس کن رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ غور طلب بات یہ ہے کہ جس ٹی ٹوئنٹی کپ میں کامران اکمل صرف 22 رنز بناکر سب کی آنکھ کا تارہ بنے ہیں، اسی ٹورنامنٹ میں وکٹ کیپر سرفراز احمد نے کسی بھی بیٹسمین کے سب سے زیادہ 250 سکور کیے جن میں تین نصف سنچریاں شامل تھیں تاہم چونکہ وہ ٹی ٹوئنٹی کپتان کی گڈبک میں نہیں ہیں لہٰذا ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے۔یہاں سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد یوسف کا ذکر بھی ہوجائے جو باقاعدہ مبصر کا روپ دھار چکے ہیں۔

محمد یوسف نے کامران اکمل اور فواد عالم کی سلیکشن کو ان کے ڈیپارٹمنٹ نیشنل بینک سپورٹس ڈویڑن کے سربراہ اور پی سی بی گورننگ بورڈ کے ممبر اقبال قاسم کی مہربانی قرار دیا ہے۔فواد عالم کی کارکردگی تو سب کے سامنے ہے جس کیلئے کسی سفارش کی ضرورت نہ تھی تاہم جہاں تک کامران اکمل کی بات ہے تو محمد یوسف کو اتنی جرات مندی ضرور دکھانی چاہیے تھی کہ وہ اقبال قاسم پر تنقید کی بجائے یہ کہہ سکتے تھے کہ اس سلیکشن میں کپتانوں کی خواہش اور مرضی کا عمل دخل زیادہ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اقبال قاسم نے چیف سلیکٹر کی حیثیت سے کامران اکمل کو ان کی خراب کارکردگی پر ٹیم سے ڈراپ کیا تھا اور عمر اکمل کو وکٹ کیپر کے طور پر آزمانے کا فیصلہ کیا تھا جس پر کامران اکمل بہت برہم ہوئے تھے۔پاکستانی ٹیم کی سلیکشن کی غیر مستقل مزاج پالیسی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کامران اکمل کو تیس ممکنہ کھلاڑیوں میں جس سلیکشن کمیٹی نے شامل کیا تھا اس میں مبینہ طور پر محمد الیاس بھی شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق محمد الیاس کا یہ دعویٰ ہے کہ ذ کا اشرف نے بحالی کے بعد انہیں چیف سلیکٹر بناکر اس میٹنگ میں بٹھایا تھا جس میں ممکنہ کھلاڑیوں کے ناموں کی منظوری دی گئی تھی۔ اسی میٹنگ میں عمر امین کا نام کاٹ کر یاسر شاہ کو ممکنہ کھلاڑیوں میں شامل کیا گیا تھا۔

متعلقہ عنوان :