سینیٹ میں حکومتی نجکاری پالیسی پر بحث ،گزشتہ پانچ سالوں میں ملک کی تباہی و بربادی کی ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے ، رضا ربانی ، اعتزاز احسن، حاجی عدیل اور شاہی سید نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی آنکھیں بند رکھیں آج مزدوروں کا درد انہیں اٹھا رہا ہے، مشاہد اللہ خان، نجکاری پالیسی میں کسی منافع بخش ادارہ کو فروخت نہیں کیا جا ئیگا اور نہ ہی ملازمین کو نکالا جائیگا انکے حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا ، سینیٹ میں اظہار خیال، ملک کمرشل ریاست بن گئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ طالبان کے ڈر سے ملک بیچنے کی بات ہونے لگے ، حکومت ٹی وی اشتہار ” بیچ دے “کی پالیسی پر گامزن ہے ، سینیٹر شاہی سید ، محسن لغاری اور دیگر کا اظہار خیال

پیر 17 فروری 2014 21:35

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17 فروری ۔2014ء) سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں بے پناہ کرپشن ہوئی ، رضا ربانی ، اعتزاز احسن، حاجی عدیل اور شاہی سید نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی آنکھیں بند رکھیں آج مزدوروں کا درد انہیں اٹھا رہا ہے نجکاری پالیسی میں کسی منافع بخش ادارہ کو فروخت نہیں کیا جا ئیگا اور نہ ہی ملازمین کو نکالا جائیگا انکے حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا جبکہ اپوزیشن اراکین نے نجکاری پالیسی پر شدید تنقیدی کی اور کہا کہ ملک کمرشل ریاست بن گئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ طالبان کے ڈر سے ملک بیچنے کی بات ہونے لگے ، حکومت ٹی وی اشتہار ” بیچ دے “کی پالیسی پر گامزن ہے ۔

پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں حکومت کی نجکاری پالیسی پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اے این پی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ ابھی تک ہمیں نجکاری کا میکنزم سمجھ نہیں آیا صرف اداروں کو بچا کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں جو قومی خزانے کیلئے کم اور اپنی جیبوں کیلئے زیادہ ہے اداروں کو اونے پونے داموں فروخت کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

خریدنے والے ان اداروں کی قیمتیں بھی اپنی مرضی سے رکھتے ہیں۔

دنیا میں نجکاری کا ایک موثر نظام ہوتا ہے یہ بد قسمتی ہے اس ملک میں کوئی نظام نہیں۔ کے ای ایس سی کی نجکاری کے بعد بھی بیل آؤٹ پیکج دیئے گئے ان کو اربوں میں پیکج دیئے گئے پی ٹی سی ایل آج بھی 800 ملین ڈالر ادا نہیں کر رہا اس کی 32 ارب سالانہ انکم تھی جو 8 ارب پر آ گئی ہے ملک کا تصور فلاحی ریاست کا تھا جو ختم ہو گیا اب یہ کمرشل ریاست بن گئی ہے ۔

ملک میں صلاحیت ہے جب چاہا موٹروے بنا لیا ، 18 ویں ترمیم ، بونیر سوات میں امن قائم کیا پھر ان اداروہں کو کیوں درست نہیں کر سکتے ہمیں نجکاری پر نہیں طریقہ کار پر اعتراض ہے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ طالبان کے ڈر سے ملک بچانے کی بات نہ ہو جائے مجھے لگتا ہے کہ ٹی وی پر او ایل ایکس کے اشتہار کی طرح ”بیچ دے “ والا کام نہ ہو ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر محسن خان لغاری نے کہا کہ ہمیں ان سے 500 ارب سالانہ نقصان ہوتا ہے ملک کے نیٹ آمدن کا 26 فیصد حصہ ہے اس طرح ملک آگے کیسے جا سکتا ہے ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ا س رقم کو ملک کی بہتری پر خرچ کرنا ہے یا ان اداروں کو دینا ہے ۔

نجکاری میں کوئی برائی نہیں نجکاری کرنے سے اثاثوں کا درست تخمینہ لگایا جائے ریگولیٹری باڈی بنائی جائے نجکاری پالیسی کی ابھی تک کوئی وزارت بھی نہیں ایک کمیشن بنایا گیا جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں کوئی بھی اس شعبے کا ماہر نہیں نجکاری کرنے والے لسٹ میں منافع بخش ادارے بھی شامل کئے گئے ۔ نقصان دے اداروں کی نجکاری ہونی چاہئے بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ نجکاری پر بحث و مباحثہ کی ضرورت نہیں تھی پارٹیوں نے اپنے منشور میں نجکاری کو فہرست میں رکھا اس پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ مناسب نہیں نجکاری قومی مسئلہ ہے ۔

پہلی نجکاری پالیسی 1994 ء میں پیپلز پارٹی نے دی تھی۔ پی پی کے منشور میں لکھا ہوا ہے کہ پوری معیشت کی نجکاری کرینگے۔ اپوزیشن بے جا تنقید نہ کرے یہاں پر حسب منشاء کا بہت ذکر کیا گیا ہے منشاء کے تو زرداری کے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔ اتنے برے تھے تو پانچ سال ان سے کیوں بجلی خریدی گئی ۔ بجلی انہوں نے خریدی بل ہم نے ادا کیا حکومت کسی بھی منافع بخشا اداروں کو فروخت نہیں کرے گی صرف ایک دو فیصد شیئرز ضرورت پڑنے پر فروخت کئے جاتے ہیں ۔

آج اسٹیل ملز کے ملازمین کو تنخواہ دینے کیلئے پیسہ نہیں اس کے ذمہ دار کون ہیں نجکاری میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کوئی ملازم نوکری سے نہ نکلے اور ان کے حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا ا س ملک میں نہ ایف آئی اے اور نیب کے پاس اتنے افراد نہیں کہ گزشتہ ادوار میں ہونیوالی کرپشن میں ملوث لوگوں کو پکڑے ان کے پاس اتنی مشینری بھی نہیں کوئی فرد کیسے کہہ سکتا ہے 1997 ء میں مشترکہ مفادات کونسل کو تسلیم نہیں کرتے 24 اپریل 2011 ء کو سی سی آئی نے جو فیصلے کئے تھے ان پر کیوں شور نہیں مچایا جاتا اس وقت تو پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اس وقت مزدوروں کے ساتھ مل کر جلوس نکالنے کی دھمکیاں کیوں نہیں دیں ۔

انہوں نے کہا کہ کئی مسائل ایسے ہیں کہ جن کو ملکر حل کرنا ہے تھر میں وزیراعظم اور آصف زرداری نے افتتاح کیا جس سے ایک مثبت پیغام گیا اگر مزدوروں کا غم گزشتہ پانچ سالوں میں ہوتا تو سٹیل ملز کا یہ حال نہیں ہوتا ملک میں پرویز مشرف نے تباہی پھیلائی اس کا 2008 ء میں احتساب ہونا چاہئے تھا لیکن اس وقت حسب منشاء کچھ اور تھی پی پی کی لیڈر کا قتل ہوا ہم نے کہا تھا کہ آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرینگے ہم نے کی ، کسی اور میں جرات تھی ؟ آج ان کے سینے میں مزدور کا دکھ اٹھ رہا ہے پی پی تباہی بربادی کی ذمہ دار ہے پی آئی اے کو جاگیر سمجھا گیا پی پی پوائنٹ سکورنگ کرنے کی بجائے ساتھ دے ہم گند صاف کرنا چاہتے یہں ہم نے معیشت کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی ڈرون حملے کم ہوئے امن و امان کیلئے مذاکرات شروع کئے۔