بلدیات، محکمہ تعلیم اور دیگر محکموں میں اضافی بھرتیوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے حکمت عملی وضح کی جارہی ہے،شرجیل میمن ، ہمارے گزشتہ دور حکومت میں تمام قواعد و ضوابط اور میرٹ کے مطابق روزگار دیا گیا،وزیر اطلاعات کا اسمبلی میں توجہ دلاوٴ نوٹس پر بیان

پیر 17 فروری 2014 20:13

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17 فروری ۔2014ء) حکومت سندھ کے محکمہ بلدیات، محکمہ تعلیم اور دیگر محکموں میں اضافی بھرتیوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے حکمت عملی وضح کی جارہی ہے۔ یہ بات پیر کو سندھ کے وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن نے سندھ اسمبلی کو مسلم لیگ (فنکنشنل) کے رکن شہریار خان مہر کے توجہ دلاؤ نوٹس پر بتائی۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ہمارے گذشتہ دور حکومت میں تمام قواعد و ضوابط اور میرٹ کے مطابق روزگار دیا گیا لیکن محکمہ بلدیات میں مقامی انتظامیہ نے بھرتیوں کے جعلی آرڈرز جاری کئے۔

ہماری انکوائری کے مطابق 12500 آرڈرز (آفر لیٹرز) جعلی ہیں، جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم اور دیگر محکموں میں بھی آسامیوں سے زیادہ سے بھرتیوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارے پاس اس مسئلے کے حل کے لیے دو آپشنز تھے۔ پہلا آپشن یہ تھا کہ جعلی آفر لیٹرز کے ذریعے بھرتی ہونے والوں کو نکال دیا جائے لیکن ہماری حکومت کسی کو بے روزگار نہیں کرتی ہے۔

ہم اب دوسرے آپشن کے بارے میں حکمت عملی وضح کررہے ہیں۔ جس کے تحت پہلے خالی آسامیوں کا تعین کیا جائے گا۔ اس کے بعد جعلی آرڈرز والے افراد کا امتحان لیا جائے گا۔ امتحان پاس کرنے والوں کو دوبارہ آفر لیٹرز جاری کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اضافی بھرتیوں کی وجہ سے تنخواہوں کی ادائیگیوں کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ شہر یار خان مہر نے اپنے توجہ دلاؤ نوٹس پر کہا کہ میرے حلقے میں لکھی غلام شاہ کی تعلقہ میونسپل انڈمنسٹریشن میں 105 جوئیر کلرک، 16 کمپیوٹر آپریٹرز، 14 اسسٹنٹ، 16 ناکہ منشی اور ایک سو سے زیادہ سینٹری ورکرز ہیں۔

ایڈمنسٹریشن کو ماہانہ ڈیڑھ کروڑ روپے ملتے ہیں لیکن تنخواہوں کا مسئلہ رہتا ہے۔اتنے ملازمین کی وہاں کیا ضرورت ہے۔ کیا انہیں دوسرے محکموں میں ضم کیا جائے گا۔ اگر نہیں تو ان کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم کے رکن کامران اختر کی جانب سے کراچی کے ضلع غربی میں پانی کی قلت کے حوالے سے توجہ دلاؤ نوٹس پر بیان دیتے ہوئے وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ کراچی کے ضلع وسطی اور ضلع غربی کو حب ڈیم سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت ہوگئی ہے۔ 10 کروڑ گیلن روزانہ کی بجائے 6 کروڑ پانی گیلن فراہم ہورہا ہے۔ پانی کی قلت دور کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی خاتون رکن نائلہ منیر کے توجہ دلاؤ نوٹس پر وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ 2009 میں موئن جو ڈرو اتھارٹی کے نام سے کوئی ادارہ قائم نہیں کیا گیا تھا۔

البتہموئن جو ڈرو کی دیکھ بھال کے لیے ایک بورڈ موجود ہے۔ اس بورڈ نے 100 ملین روپے کا ایک فنڈ قائم کیا تھا۔ 71 ملین روپے وفاق کی طرف سے سندھ کو ملے ہیں۔ ان 171 ملین روپے سے سرٹیفکٹس لے کر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اس سرمایہ کاری سے حاصل ہونے واللے منافع سے موئن جو ڈرو کی دیکھ بھال اور وہاں کے ملازمین کی تنخواہوں پر اخراجات کیے جاتے ہیں۔