پاکستان میں کام کرنے والے تینوں نیو کلیئر پاور پلانٹس قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہیں، انصر پرویز،58اسلامی ممالک میں سے پاکستان واحد ملک ہے ،جس نے ایٹمی ٹیکنالوجی سے 5شعبوں میں فن کمال حاصل کیا ہے،میڈیا ورکشاپ سے خطاب

ہفتہ 15 فروری 2014 22:22

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15 فروری ۔2014ء) پاکستان اٹامک انرجی کے چیئرمین انصر پرویزنے کہا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے تینوں نیو کلیئر پاور پلانٹس قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہیں ،وہ حکومت سے سبسڈی لینے کی بجائے خزانے میں اضافہ کررہے ہیں ۔58اسلامی ممالک میں سے پاکستان واحد ملک ہے ،جس نے ایٹمی ٹیکنالوجی سے 5شعبوں میں فن کمال حاصل کیا ہے ۔

پاکستان میں زراعت، طب،توانائی اور دفاع کے شعبے میں ایٹمی ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے ۔ وہ ہفتہ کو کراچی نیو کلیئر پاور پلانٹ (کینپ) میں لگنے والے 2200میگاواٹ صلاحیت کے نیو کلیئر پاور پلانٹ اور تابکاری کے حوالے سے میڈیا ورکشاپ سے خطاب کررہے تھے ۔اس موقع پر ڈاکٹر انعام الرحمن ، خواجہ غلام قاسم ،ڈاکٹر فاطمی اور غلام رسول اطہر نے بھی خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر صحافیوں کو پاور پلانٹس اور سائٹس کا دورہ بھی کرایا گیا ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انصر پرویز نے کہا کہ پاکستان میں بننے والی ایٹمی بجلی 7روپے فی یونٹ کی قیمت پر تیار ہورہی ہے ،جو کو ہائیڈرل کے بعد سستی ترین بجلی ہے ۔ کراچی الیکٹرک نے کینپ کو پانچ ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایٹمی توانائی محفوظ ترین توانائی ہے ۔

دنیا بھر میں ایٹمی حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 30ہے ۔جبکہ کیمیکل ،پیٹرو کیمیکل اور دیگر صنعتی حادثوں میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں لگنے والے ایٹمی بجلی گھر کراچی کے شہریوں کو روزگار اور صنعتی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے ۔پلانٹس کے مکمل ہونے تک دو ہزار افراد کو روزگار ملے گا جبکہ تعمیرات کے دوران بھی ہزاروں لوگ روزگار حاصل کرسکیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ کینپ پاکستان میں 1972سے کام کررہا ہے جبکہ چشمہ ون اور چشمہ ٹو بھی اپنی پوری صلاحیت سے کام کررہے ہیں اور آج تک کوئی بھی حادثہ رونما نہیں ہوا ہے ۔پاکستان کے ایٹمی سیفٹی ریکارڈ دنیا میں مثالی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے نیو کلیئر کے تمام شعبوں میں درجہ کمال کی مہارت حاصل کرلی ہے اور اٹامک ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں میں پاکستان میں ترقی ہورہی ہے ۔بعد ازاں ورکشاپ میں شرکت کرنے والے صحافیوں کو سرٹیفکیٹ دیئے گئے ۔

متعلقہ عنوان :