ایک رسمی ایک حقیقی جمہوریت ہوتی ہے ، جمہوری قدروں کا تحفظ نہ کیا گیا تو حقیقی جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا‘ جسٹس تصدق حسین جیلانی،نعروں ، کلچر اور کردار میں فرق نہیں ہونا چاہیے ،اسلام اور آئین اقلیتوں کو برابری کے حقوق دیتا ہے ،برداشت کے کلچر کو بھی فروغ دینا ہوگا ،عدالت کے تعاون کے علاوہ ریاست کے دیگر ستونوں کا تعاون انصاف کیلئے ضروری ہے، چیف جسٹس پاکستان کا تقریب سے خطاب

ہفتہ 15 فروری 2014 21:04

ایک رسمی ایک حقیقی جمہوریت ہوتی ہے ، جمہوری قدروں کا تحفظ نہ کیا گیا ..

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15 فروری ۔2014ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ ایک رسمی اور ایک حقیقی جمہوریت ہوتی ہے اگراداروں کو مضبوط اور جمہوری قدروں کا تحفظ نہ کیا گیا تو حقیقی جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا،ہمارا اسلام اور آئین کہتا ہے کہ اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل ہوں گے اور ہمیں برداشت کے کلچر کو بھی فروغ دینا ہوگا ،دنیا میں 200کے قریب ممالک ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں بستے ہیں اگر ہم نے اقلیتوں کی عبادتگاہوں کا تحفظ نہ دیا تو ہماری عبادتگاہوں کو بھی خطرات لا حق رہیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز پنجاب بار کونسل میں وکلاء کو سمارٹ کارڈ جاری کرنے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

تقریب سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمر عطا بندیال سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پر اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کے معززججز صاحبان ،لاء افسران اور بارز عہدیداروں کے علاوہ وکلاء کی کثیر تعداد بھی موجود تھی ۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے کہ یہاں جمہوری نظام ہوگا ، قانون کی بالا دستی ہو گی اور اقلیتوں کے حقوق ہوں گے۔ آئین یہ بھی کہتا ہے کہ یہاں پر عوام کو سستا انصاف میسر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک رسمی اور ایک حقیقی جمہوریت ہوتی ہے ۔ ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں انتخابات میں اکثریتی جماعت حکومت میں ہے ۔اگر غور سے دیکھیں تو حقیقی جمہوریت کا خواب اس وقت شرمندہ تعمیر ہو گا جب ہم آئین میں دی ئی قدروں پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے اسے معاشرہ میں عمل میں لے آئیں ۔

ہمارے نعروں ، کلچر اور کردار میں فرق نہیں ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہاں پانچ قدروں کا ذکر کروں گا جس میں آئین کی بالا دستی ،جمہوریت کا دفاع سر فہرست ہیں اور جمہوریت کے دفاع کے لئے وکلاء کی قربانیاں تاریخ کا سنہرا باب ہیں ۔ اسکے علاوہ قانون کی حاکمیت ہر فیصلے میں ہونی چاہیے ، ہمیں لوگوں کو قانونی طور پر طاقتور بنانا ہوگا ۔

انہوں نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کے ہر شعبے میں ان باتوں پر عملدرآمد سے پہلے وکلاء کو اسکی ابتداء اپنے آپ سے کرنی ہو گی ،وکلاء کو ایک مثال اور نمونہ کے طو رپر خود کو پیش کرتے ہوئے یہ بتانا چاہیے کہ ہم قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی تبھی ہو گی جب انصاف ملے گا ،چاہے سول جج ہو یا اعلیٰ عدلیہ کا جج سب کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اقلیتوں کے تحفظ اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا ، آئین اور اسلام کہتا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق ہوں گے ۔ ایک دفعہ حضوراکرم ﷺ کی زندگی میں عیسائیوں کا قافلہ آیا لیکن اسے شام ہو گئی اور حضور نبی کریم ﷺ نے انہیں مسجد نبوی میں بلایا اور یہ برداشت کا کلچر تھا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آئین اور اپنا مذہبی فرض نبھاتے ہوئے اقلیتوں کو تحفظ دیں۔

ہم اقلیتوں میں میرٹ پر آنے والوں کو اعلیٰ عدلیہ میں بھی ضرور لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ بار اور بنچ دونوں انصاف کے حصول میں ہم سفر ہیں۔ وکلا ء کے پیشہ ورانہ تعاون کے بغیر عدلیہ انصاف نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے تعاون کے علاوہ ریاست کے دیگر ستونوں کا تعاون انصاف کے لیے ضروری ہے، ہر شہری آئینی قدروں کے حصول اور ان کے تحفظ کیلئے کوشش کرے۔

وکالت کا معزز پیشہ وکلا ء سے نہ صرف انفرادی طور بلکہ معاشرہ کے اہم فرد ہونے کی حیثیت سے بھی اہم آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے کا تقا ضہ کرتا ہے بلکہ ان کو ذاتی انا ، پسند نہ پسند کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے ، سائل ، قانون اور عدلیہ سے مخلص رہتے ہوئے آئینی ، قانونی اور اخلاقی طور پر کردار ادا کرنے پر زور دیتا ہے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ آج کی تقریب کا مقصد ہماری وکلا ء برادری اور انصاف کے متلاشی عوام دونوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔

وکلا برادری میں یہ شکایت کافی عرصہ سے تھی کہ ان کے درمیان چند ایسے افراد بھی ہیں جو اپنے آپ کو وکیل ظاہر کرتے ہیں لیکن ان کے پاس قانون کی ڈگری یا بارکا سرٹیفکیٹنہیں ہوتا۔ پنجاب بار کونسل نے سمارٹ کارڈ کا اجراء کرکے وکلاء برادری کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہیں جس کے لیے پنجاب بار کونسل بالخصوص اس کے عہدیدران مبارک باد کے مستحق ہیں اور مجھے یہ یقین ہے کہ پنجاب بار کونسل کے اس احسن قدم کو ملکی سطح پر بھی دیگر بار کونسلز میں پزیرائی ملے گی۔

موجودہ دور کے مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا حصول ہماری ملکی ترقی کے لیے نا گزیر ہو چکا ہے اس کارڈ کے اجراء سے وکلا برادری میں موجود کالی بھیڑوں کا مکمل صفایا ہو گا اور نظام کی شفافیت کے ذریعے وکلا برادری کے حقیقی نمائندو ں کی نشاندہی ممکن ہوگی سائلان کو انصاف کی بروقت فراہمی کے حصول میں مد د فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی خود مختاری اور وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔

انہوں نے تقریب میں مدعو کرنے پر پنجاب بار کونسل کا شکریہ ادا کیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں بہتری کی کوشش کر رہے ہیں، غلط رویے والے ججوں کی اسکروٹنی کی جائے گی،انصاف کی فراہمی کے لیے ججوں کا نرم خو ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے بار کے تعاون سے مختلف اضلاع میں دو ہزار آٹھ سے قبل کے تمام پرانے مقدمات نمٹا دئیے ہیں جبکہ لاہور میں مقدمات نمٹانے کے لئے عدالتوں کو دو سیشن ججز کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔