سندھ میں موجود تقریباً 49ہزار اسکولزمیں سے 11ہزار اسکولز غیر فعال ہیں ،نثار احمد کھوڑو ،بند یا غیر فعال اسکولز کو فعال بنانے کے تک اسکولز کھولنے پر پابندی رہے گی،وزیر تعلیم سندھ کا سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات میں جواب

جمعہ 14 فروری 2014 19:23

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14 فروری ۔2014ء) سندھ کے سینئر وزیر برائے تعلیم نثار احمد کھوڑو نے کہا ہے کہ سندھ میں تقریباً 49ہزار اسکولز ہیں ان میں سے 38ہزار اسکولز چل رہے ہیں ۔باقی 11ہزار اسکولز بند یا غیر فعال ہیں ۔بند یا غیر فعال اسکولز کو فعال بنانے کے تک اسکولز کھولنے پر پابندی رہے گی ۔یہ بات انہوں نے جمعہ کو سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران متعدد ارکان کے تحریری اور ضمی سوالوں کے جواب میں بتائی ۔

وزیر تعلیم نے بتایا کہ 49ہزار میں سے 90فیصد یعنی 43ہزار اسکولز پرائمری ہیں ۔ان میں سے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار اسکولز بند یا غیر فعال ہیں ۔ایک گاوٴں میں 54پرائمری اسکولز ہیں۔ جبکہ ایک رکن نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ ایک گاوٴں میں 84اسکول ہیں ۔وزیر تعلیم نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ کوئی اسکول غیر فعال نہ ہو۔

(جاری ہے)

ہم اسکولز میں تعینات اساتذہ کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کررہے ہیں ۔

اس سے پتہ چلے گا کس اسکول میں کتنے ٹیچرز ہیں اور ٹیچرز کی موجودگی میں اسکولز بند کیوں ہیں ۔ایسے ٹیچرز کے خلاف کارروائی کی جائے گی ، جن کی وجہ سے اسکولز بند ہیں اور انہیں سزا دی جائے گی ۔ہم بچوں کی انرولمنٹ کو بھی کمپیوٹرائزڈ کررہے ہیں ۔اس سے ہمیں پتہ چلے گا کہ کس اسکول میں مختلف کلاسز میں کتنے کتنے بچے ہیں ۔وہاں کتنے اساتذہ کی ضرورت ہے اور کتنے بچے اسکول چھوڑ کر جارہے ہیں ۔

وزیر تعلیم نے کہا کہ ورلڈ بینک کے پروگرام کے تحت ہم بھرتیاں کررہے ہیں ۔این ٹی ایس کا امتحان پاس کرنے والے امیدواروں کو آفر لیٹر جاری کردیئے ہیں ۔ان امیدواروں کی بھرتی پر پابندی نہیں ہے ۔نئی بھرتیوں سے ہم تین ہزار بند اور غیر فعال اسکولز کو کھول سکیں گے ۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کا بجٹ 132ارب روپے ہے ۔ان میں سے 110ارب روپے تنخواہوں کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں ۔

باقی 22ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہے ،جس میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) اور غیر ملکی امداد میں چلنے والے منصوبے بھی شامل ہیں ۔ترقیاتی بجٹ میں سے زیادہ تر رقم جاری اسکیموں کے لیے مختص کی جاتی ہے تاکہ یہ اسکیمیں مکمل ہوں ۔اسکولز اور کالجز کی عمارتوں کی مینٹی ننس اور مرمت کا کام ہورہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کے کل 15لاکھ ملازمین ،جن میں سے ڈھائی لاکھ یعنی 50فیصد ملازمین صرف محکمہ تعلیم میں ہیں ۔

وزیر تعلیم نے بتایا کہ کراچی میں کوئی گھوسٹ اسکول نہیں ہے ۔2008سے 2013تک پورے صوبے میں کوئی گھوسٹ اسکول نہیں تھا ۔انہوں نے بتایا کہ 2011-12اور 2012-13میں کراچی میں 35نئے مڈل اسکول قائم کیے گئے یا انہیں اپ گریڈ کیا گیا ۔اسی طرح حیدر آباد ریجن میں 107،میر پور خاص ریجن میں 74،سکھر ریجن میں 73اور لاڑکانہ ریجن میں 69نئے مڈل اسکول کھولے گئے ہیں ۔وزیر تعلیم نے بتایا کہ 2009سے 2013تک کراچی ریجن میں کوئی نیا اسکول قائم نہیں کیا گیا ۔

جبکہ حیدر آباد ریجن میں 83،سکھر ریجن میں 40،میرپور خاص ریجن میں 76اور لاڑکانہ ریجن میں 39نئے اسکول قائم کیے گئے جبکہ اس عرصے کے دوران صوبے بھر میں 39نئے کالج قائم کیے گئے ۔وزیر تعلیم نے بتایا کہ ارکان سندھ اسمبلی میرے ساتھ تعاون کریں اور بند یا غیر فعال اسکولوں کی نشاندہی کریں تاکہ انہیں فعال بنایا جا سکے ۔ ارکان اسمبلی ان منصوبوں کی بھی نشاندہی کریں ، جو ابھی تک مکمل نہیں ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں 659 اسکولز ایسے ہیں ، جہاں انرولمنٹ نہیں ہے اور 137 اسکولز ایسے ہیں ، جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے ۔

متعلقہ عنوان :