مذاکراتی کمیٹی کی کنجی جی ایچ کیو کے پاس ہے جوبھی فیصلہ آیاعمل کرنا پڑے گا،فضل الرحمن،مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں، پاکستان میں مسلح جدوجہد غیر شرعی ہے ،مجھ پر حملے ناراض طالبان نے کیے،خدشہ ہے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ہوچکاہے،جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی نجی ٹی وی سے گفتگو

بدھ 12 فروری 2014 22:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12 فروری ۔2014ء) جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے خدشہ ظاہرکیاہے کہ جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ہوچکاہے ، طالبان سے مذاکراتی کمیٹی کی کنجی جی ایچ کیو کے پاس ہے جو وہاں سے فیصلہ آئے گا اس پرعمل درآمد کرنا پڑے گا،طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں،مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو ہمیں بہت خوشی ہوگی،ملک بھر کے نامورعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ پاکستان میں مسلح جدوجہد غیر شرعی ہے ،مجھ پر حملے ناراض طالبان نے کیے،سوات معاہدہ ماورائے آئین ہے ،حکومت طالبان کے تمام گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لائے کیونکہ ایک گروپ سے مذاکرات ہوں دوسرے حملے کریں تو کیسے ملک میں امن قائم ہوسکتاہے؟گزشتہ روز نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ جنگ امریکا اورمغربی طاقتوں کی ضرورت ہوسکتی ہے پاکستان کی نہیں،ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں اورمذاکرات ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ جنگ سے بچا جاسکے،انہوں نے کہاکہ طالبان سے مذاکراتی کمیٹی کی کنجی جی ایچ کیو کے پاس ہے جو وہاں سے فیصلہ آئے گا اس پرعمل درآمد کرنا پڑے گا،طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں،مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو ہمیں بہت خوشی ہوگی،انہوں نے کہاکہ طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے وزیراعظم کو تجاویز دی ہیں لیکن میں انہیں عام نہیں کرنا چاہتا تاکہ حکومت اعتماد نہ کھوبیٹھے،مولانافضل الرحمن نے کہاکہ ہم نے حکومت سے مذاکرات کے لیے مشورہ نہ کرنے پر افسوس کااظہاراس لیے کیاکیونکہ ہمیں قبائلی علاقوں کی زمینی اورعلاقائی صورتحال معلوم ہے اوریہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس کا فائدہ حکومت اورپاکستانی عوام کو بھی پہنچائیں،ماضی میں جتنے بھی مذاکرات کیے گئے اس میں ہمیں شامل کیاگیا اوراس کے نتائج بھی نکلے اس لیے اگر موجودہ حکومت بھی ہم سے رابطہ کرتی توہم مایوس نہ کرتے ،انہوں نے کہاکہ بیت اللہ محسود نے انہیں ایک خط میں کہاتھا کہ وہ آئین کے دائرے میں رہ کر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ،وہ قبائلی علاقوں میں امن چاہتے تھے ،انہوں نے کہاکہ ہم نے حکومت سے کہاتھا کہ طالبان کے تمام گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لائیں کیونکہ ایک گروپ سے مذاکرات ہوں دوسرے حملے کریں تو کیسے ملک میں امن قائم ہوسکتاہے؟مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ملک بھر کے تمام نامورعلماء کرام کا کا ایک اجماع ہوا جس میں سب نے اتفاق کیا کہ پاکستان میں مسلح جدوجہد غیر شرعی ہے اورمیں اعلان کرچکاہوں کہ جس بات پر علماء کرام کا اجماع ہوجائے میں اس کو مانتا ہوں اوریہ بھی مانتاہوں کہ مسلح جدوجہد غیرشرعی ہے جس کے بعد طالبان نے مجھ پر حملے کیے ،انہوں نے کہاکہ طالبان بھی ہمارے شہری ہیں وہ بھٹک گئے ہیں انہیں راہ راست پر لانا ہمارا کام ہے اورہم نے مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہے اورطالبان کو قومی دھارے میں لانا ہے،انہوں نے کہاکہ اے این پی نے سوات معاہدہ کیا جو غیر آئینی ہے اوریہ معاہدہ فوج نے کروایا،انہوں نے کہاکہ خدشہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ہوچکاہے ۔