وفاقی اور صوبائی حکومت نے پہلے دن ہی کراچی سے آخری کریمنل کے خاتمے تک ٹارگٹڈ آپریشن جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا، وزیراعلیٰ سندھ، آپریشن وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر مشترکہ طور پر شروع کیا تھا، اجلاس سے خطاب

بدھ 12 فروری 2014 20:58

وفاقی اور صوبائی حکومت نے پہلے دن ہی کراچی سے آخری کریمنل کے خاتمے تک ..

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12 فروری ۔2014ء) وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے پہلے دن ہی سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کراچی سے آخری کرمنل کے خاتمے تک ٹارگٹیڈ آپریشن جاری رہے گا اور وفاقی اور صوبائی حکومت نے اس عزم پر قائم ہیں کہ بغیر کسی دباؤ کے اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔ انہوں نے یہ بات امن و امان کی صورتحال اور بالخصوص کراچی میں دہشت گردوں ، اغو کنندگان، بھتہ خوروں کے خلاف جاری ٹارگٹیڈ آپریشن کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے عام آدمی کی زندگی کے تحفظ کے لئے اپنی جان ، جوکھوں میں ڈال کر دہشت گردوں کے خلاف لڑائی لڑنے کے سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو سراہا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر مشترکہ طور پر شروع کیا تھا اور یہ سندھ حکومت بلا تفریق دہشت گردوں ، اغوا کنندگان اور بھتہ خوروں کی بیخ کنی کے لئے لڑ رہی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے اس مینڈیٹ کے تحت کام کر رہے ہیں اور کسی کو بھی قانون سے کھیلنے کی اجازت نہی دی جائیگی۔

انہوں نے کہا کہ مرکز اور صوبوں میں جمہوریت رواں ہے اور جمہوری حکومت میں کسی بھی قسم کے انتقام کی گنجائش نہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان کی حکومت جاری آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کی گئی پیش رفت اور کارکردگی سے متعلق سندھ اسمبلی کو بھی آگاہ کریگی ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد ، کالعدم تنظیمیں شکست کے بعد بوکھلا کر دیگر منفی ہتھکنڈے استعمال کرکے لوگوں کی توجہ منقسم کرنا چاہتے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومت سندھ اس صورتحال سے پوری طرح آگاہ ہے اور ناپاک غزایم سے آئینی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں شہر میں بلاتفریق جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے کچھ مسائل کا سامنہ ہے اور ان مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کے لئے حکومت سندھ نے ایک میکنزم ترتیب دینے پر غور کر رہی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے غیر قانونی موبائیل سموں کے سبب ٹارگٹڈ آپریشن میں آنے والی رکاوٹوں پر تحفظات کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ صرف شہید پولیس افسران چوہدری اسلم کے مقدمے کے تفتیش کے لئے -40 ہزار سموں کی ڈیٹابیس کا تجزیہ کیا گیا ۔ علاوہ ازیں ملزمان کو سزا دلانے کے لئے عدالتوں میں چالان کئے گئے کرمنل مقدمات پر سست پیش رفت بھی ایک مسئلا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ایڈوکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ پر مشتمل دورکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو کہ -5 ستمبر -2013 سے جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے سلسلے میں چالان کئے گئے مقدمات کی فوری پیش رفت کے لئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کر یگی اور حکومت سندھ نے اس سلسلے میں -5 مزید اے ٹی سی کورٹس کی منظوری دی ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے انوسٹی گیشن او پراسیکیو شن برانچز کے افسرا ن پر زور دیا کہ وہ سندھ پولیس اور رینجرز کی طرح باہمی اور قریبی روابط کو فروغ دیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت سندھ پولیس کو خطیر فنڈز کے خرچ سے جدید اسلحہ، اے پی سی اور بلٹ پروف گاڑیاں ، ہیلمٹ فراہم کر یگی تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ دہشت گردوں سے مقابلہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی اور تاجروں ، شہریوں اور کاروباری طبقہ کا اعتماد بحال ہو اہے اور سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کی فروغ حاصل ہو اہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جرائم پر کافی حد تک قابو پایا ہے اور جرائم کی شرح کو نیچے لیکر آئے ہیں لہذاہ ہم اسے آدھے راستہ میں نہیں چھوڑیں گے بلکہ اسے اس کے منطقی انجام تک پہچائیں گے۔ ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی شاہد حیات نے کہا کہ ٹارگٹڈا ٓپریشن کے بعد رواں عرصہ کااگرگذشتہ برس کے عرصہ سے موازنہ کر یں تو موجودہ جرائم کی شرح کا گراف بڑی حد تک نیچے ہے۔

انہوں نے کہا کہ -30 مارچ -2013 ت سے 4ستمبر 2013تک1280 قتل کے واقعات رونما ہوئے جبکہ -5 ستمبر -2013 سے -10 فروری 2014(159دنوں میں) صرف 848قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ۔ اسی طرح آپریشن کے عرصے کے دوران اغوا برائے تاوان کے 27کیسز ہوئے جبکہ گذشتہ برس اسی وقت کے دوران 25کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور ٹارگیٹیڈ آپریشن کے دوران 879بھتہ خوری کی شکایات موصول ہوئی جبکہ ٹارگیٹیڈ آپریشن کے پہلے اسی عرصے کے دوران 1100شکایات موصول ہوئی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ 5ستمبر 2013سے 10فروری 2014 تک 16214ملزمان بشمول 4385مفرور ملزمان کو 387پی او ز کے تحت گرفتار کیا گیا ۔ جبکہ گزشتہ برس 5ستمبر 2012سے 10فروری 2013ء کے عرصے کے دوران 11029کرمنلز کو گرفتار کیا گیا اس طرح سے 5185کرمنلز کی تعداد کا واضح فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے ٹی سی کورٹس میں 192ملزمان کو 169مقدمات میں چالان کیئے گئے جبکہ 8297کرمنلز 6429مقدمات میں دیگر کورٹوں میں چالان کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 144ملزمان کو مختلف مقدمات میں سزا ہوئی جبکہ 3485ملزمان کو مختلف عدالتوں نے ضمانت دی ۔ اس طرح سے اجلاس کو بتایا گیا کہ رینجرز نے 1697ملزمان کو گرفتار کیا جس میں سے 1628ملزمان کو سندھ پولیس کی تحویل میں دیا گیا ۔ جس میں سے 936ملزمان زیر سماعت ہیں جبکہ رینجرز کے پاس مزید 280 زیر تفتیش ہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ 67ملزمان پی پی او کے تحت 90دن کے لئے رینجرز کے پاس نظر بند ہیں۔

پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے اجلاس کو بتایا کہ جنوری 2014کے مہینہ میں 14مقدمات کا فیصلہ ہوا جس میں سے 7مقدمات میں سزا ہوئی جس میں ایک مقدمہ میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن، ایڈیشنل چیف سیکریٹری (داخلہ) سید ممتاز علی شاہ، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری رائے سکندر، سیکریٹری قانون میر محمد شیخ، پراسیکیوٹر جنرل شیر محمد شیخ، ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی شاہد حیات ، کراچی کے تمام ڈی آئی جیز، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران نے بھی شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :