کوہستان ،ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا لاپتہ ہونے والی پانچ لڑکیوں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم ، اگر خواتین کو مار دیا گیا ہے یا انتقال کر چکی ہیں تو لاشیں سامنے لائی جائیں ، عدالت ،معاملہ دوبارہ عدالت میں لے جانے کا مقصد مقدمے اور واقعہ بارے موجود ابہام دور کرنا اور حقائق سامنے لانا ہے قومی کمیشن برائے وقار نسواں

بدھ 12 فروری 2014 20:56

کوہستان (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12 فروری ۔2014ء)خیبر پختونخوا کے دورافتادہ پہاڑی ضلع کوہستان کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے پولیس حکام کو دو برس قبل لاپتہ ہونے والی پانچ لڑکیوں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر خواتین کو مار دیا گیا ہے یا انتقال کر چکی ہیں تو لاشیں سامنے لائی جائیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ پانچوں لڑکیاں وہ ہیں جنھیں مئی 2012 میں کوہستان میں سامنے آنی والی ایک تقریب کی اس ویڈیو میں تالیاں بجاتے دیکھا گیا تھا جس میں دو لڑکے رقص کر رہے تھے۔

ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مقامی جرگے نے دونوں لڑکوں اور پانچوں خواتین کو موت کی سزا سنائی تھی۔سزا سنائے جانے کے بعد دونوں لڑکے علاقے سے بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے تھے تاہم ان کے تین بھائیوں کو لڑکیوں کے رشتہ داروں نے قتل کر دیا تھا اور حال ہی میں اس مقدمے میں ایک ملزم کو سزائے موت اور پانچ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی لڑکوں کے برعکس ان پانچوں لڑکیوں کے بارے میں اس وقت کچھ علم نہیں ہو سکا تھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا اور بعد میں اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ انھیں بھی ہلاک کر دیا گیا کوہستان کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سردار محمد ارشاد نے ڈی پی او کوہستان کو حکم دیا کہ وہ تحصیل پلاس کی یونین کونسل پیچ بیلا کے علاقے داندو سرتی سے لاپتہ ہونے والی پانچ خواتین کو 26 فروری کو یا تو زندہ بازیاب کروائیں یا ان کی لاشیں عدالت کے سامنے پیش کی جائیں۔

(جاری ہے)

سیشن جج نے یہ حکم اس درخواست کی پہلی سماعت کے دوران جاری کیا جسے قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔پٹیشن دائر کرنے والے وکیل مظہر اکرم ایڈوکیٹ نے عدالت میں کوہستان ویڈیو سکینڈل کے حوالے سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ اور لاپتہ لڑکیوں کی تصاویر بھی پیش کیں۔کمیشن کے وکیل مظہر اکرم ایڈوکیٹ نے غیر ملکی میڈیا کوبتایا کہ لیباٹری ٹیسٹ کے مطابق ویڈیو میں موجود لڑکیوں میں سے کسی کو فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کے سامنے پیش نہیں کیا گیا تھا اور بعد میں ان کی تصاویر بھی لی گئیں قومی کمیشن نے درخواست میں یہ موقف اختیار کیا کہ ان پانچوں لڑکیوں کو کمیشن کے سامنے پیش ہی نہیں کیا گیا تھا اور چار لڑکیوں کو جرگے کے حکم کے فوراً بعد اور شاہین نامی پانچویں لڑکی جو کہ حاملہ تھی، بچے کی پیدائش کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔

قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئر پرسن خاور ممتاز نے برطانوی میڈیا کو بتایا کہ یہ معاملہ دوبارہ عدالت میں لے جانے کا مقصد اس مقدمے اور واقعے کے بارے میں موجود ابہام دور کرنا اور حقائق سامنے لانا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’لڑکیوں کے بعد ان کے بھائیوں کے قتل کی اخباری خبریں بھی موصول ہوئیں اور کمیشن کی رپورٹ میں بھی یہ سامنے آیا کہ وہاں جانے والے اراکین سے صرف ایک خاتون کی ملاقات ہوئی ہے۔