برگزیدہ ہستیوں کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انتہا پسندی اور فرقہ واریت جیسی برائیوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے، ممنون حسین ،امن و سلامتی پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار معاشرے میں فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دیگرناسور گھر کئے نظر آتے ہیں ، تقریب سے خطاب ، بلاشبہ پاکستان کے حالات کٹھن ہیں ، ہمیں مایوس نہیں ہونا چا ہئے ، وزیر تجارت خرم دستگیر کا خطاب

منگل 11 فروری 2014 22:59

گوجرانوالہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11 فروری ۔2014ء) صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ اسلام کے ابدی و حقیقی پیغام اور برگزیدہ ہستیوں کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انتہا پسندی اور فرقہ واریت جیسی برائیوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے ۔وہ منگل کو یہاں ممتاز شاعر، لکھاری اور صوفی دانشور واصف علی واصف کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کررہے تھے واصف خیال سنگت گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ”اسلام امن ہے، سلامتی ہے“ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان، واصف علی واصف کے فرزند کاشف محمود، صدر مشائخ کونسل خواجہ غلام قطب الدین فریدی اور ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پاکستان سہیل عمرسمیت دیگر شخصیات بھی اس موقع پر موجودتھیں۔

صدرمملکت نے کہا کہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جو نہ صرف اپنے پیروکاروں بلکہ پوری انسانیت کیلئے امن و سلامتی کا پیغام ہے ، حق کا یہ پیغام نہ صرف انسان کی باطنی و روحانی اور ذاتی و اجتماعی پاکیزگی پر زور دیتا ہے بلکہ انسانوں کے درمیان امن و اخوت، ہم آہنگی اور انسانیت کے باہمی رشتے کو مضبوط بنیادوں پر استوار بھی کرتا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ دین اسلام کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ اس نے انسان کو حقیقی معنوں میں انسانیت کی تعظیم اور حقوق سے روشناس کرایا۔ اسلام نے بنی نوعِ انسان پر جو احسانات کئے ہیں ان کا اعتراف نہ صرف اپنوں بلکہ اغیار کو بھی ہے ایک ایسا مذہب جس نے انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر اشرف المخلوقات ہونے کا احساس دلایا، خواتین اورمعاشرے کے دیگر پسے ہوئے طبقوں کو ان کا جائز مقام دلایا ، عداوتوں، فرسودہ رسومات اور غلامیوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی انسانیت کو آزاد کروایا اور انسانی جان کی حرمت کو سب سے مقدس قرار دیا۔

صدر نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے نبی پاک جب کوئی لشکر روانہ کرتے تو اسے تلقین فرماتے کہ دشمن کو اسلام کا پیغام دو اور محبت سے زیر کرو۔ بستیاں نہ اجاڑو، دشمنوں کا قتل عام نہ کرو اور قیدیوں اور خواتین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ صدر نے اس امر پر تشویش ظاہر کہ اسی امن و سلامتی پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار ہمارے معاشرے میں آج فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دیگرناسور گھر کئے نظر آتے ہیں۔

آج جس طرح کے فکری اور روحانی نوعیت کے بحرانوں سے ہمارا ملک گزر رہا ہے اس سے قوم پریشان ہے اور ان بحرانوں سے نجات کیلئے دعا گو ہے یقینا آج کے حالات ہماری قوم کیلئے آزمائش کی گھڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ آزمائش کی گھڑیوں میں جن اقوام نے غیروں پر امید کی نظریں رکھنے کی بجائے اپنی ہی مٹی سے جنم لینے والی دانش سے استفادہ کیا وہ سرخرو ہوئیں۔

اس موقع پر صدر نے واصف علی واصف کے اس قول کا حوالہ دیا کہ ” جب ہم اپنی غلطیوں پر دوسروں سے معافی مانگنا اور دوسروں کی غلطیوں پر انہیں معاف کرنا سیکھ جائیں گے تو ہمارے 90 فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔ “ صدر ممنون حسین نے اس امر پر زور دیا کہ ہم سب کو مل کر غور کرنا چاہئے کہ اگر ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور دوسرے کو معاف کرنے جیسے سنہری اصول پر عمل پیرا ہوتے تو کیا آج ہماری یہ حالت ہوتی؟ انہوں نے واصف علی واصف  اس قول کا بھی ذکر کیا کہ ”سب سے بڑا منافق وہ ہے جو اسلام سے تو محبت کرے لیکن مسلمانوں سے اسے نفرت ہو“۔

انہوں نے کہا کہ اس واضح قول کے بعد کسی اور وضاحت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ کیا ان کے فقط ایک ہی فقرے نے نفرتوں کے بیج بونے والے، تفرقہ بازی کو ہوا دینے والے اور اپنے مفادات کی خاطر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والوں کی اصل حقیقت کو بے نقاب نہیں کر دیا؟ اور کیا ان کے اقوال زریں اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایسے عناصر کسی بھی مذہب کے پیروکار کہلوانے کے حق دار ہیں؟ صدر نے اس امر پر زور دیا کہ ہمیں اپنے مسائل کے حل اور اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے واصف علی واصف  جیسے برگزیدہ لوگوں کی تعلیمات اور فکر کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے۔

درحقیقت آج ہمیں ایسی تعلیمات کو اجاگر کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ جب ہم اپنے بزرگوں کی تعلیمات پر سچے دل سے عمل پیرا ہوں گے تو دینی اور دنیاوی دونوں کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمات واصف پر عمل پیرا ہوکر ہم نہ صرف انتہا پسندی اور فرقہ واریت جیسی برائیوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ وطنِ عزیز کو صحیح معنوں میں امن و سکون کا گہوارہ اور سلامتی کا مسکن بنا سکتے ہیں۔

صدر نے کہا کہ خوشاب کی سرزمین سے اٹھ کر وطن عزیز کے طول و عرض میں علم و دانش کے موتی بکھیرنے والے استاد ، لکھاری ، شاعر اور صوفی دانشور واصف علی واصف کی یاد میں منعقد ہونے والی یہ تقریب خوش آئند ہے۔ صدر نے کہا کہ واصف علی واصف ایک درویش صفت انسان تھے۔ اسلام، پیغمبر اسلام اور وطن کی محبت کی دولت سے مالا مال تھے ۔ ان کی طبیعت میں عاجزی و انکساری ، درویشی اور جذب کا رنگ غالب تھا ۔

ان کی شاعری اور نثری تحریریں علم و دانش کے موتی ہیں جس میں دین و دنیاوی کامیابی کے لیے واضح اور مؤثر رہنمائی موجود ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اپنی سوچ کو معاشرے کے مختلف طبقات تک پہنچانے کیلئے اگرچہ انہوں نے عام فہم زبان کا انتخاب و استعمال کیا لیکن ان کا ایک ایک لفظ اپنے اندر بے شمار معنی پروئے ہوئے اور بے پناہ وسعت کا حامل ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ میرے لئے یہ بات انتہائی باعثِ مسرت ہے کہ آج جو موضوع زیر خیال و گفتگو ہے وہ اسلام کا اصل پیغام اور روح ہے اور امن اور سلامتی کے اس پیغام کو واصف علی واصف  اور ان جیسے تمام برگزیدہ لوگوں نے نہ صرف لوگوں تک پہنچایا بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا۔

انہوں نے پروگرام کے انعقاد پر واصف خیال سنگت کے منتظمین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ واصف علی واصف کی تعلیمات کو زندہ رکھنے اور اسے ملک کے کونے کونے میں پہنچانے کے سلسلے میں کی جانے والی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ تقریب نہ صرف واصف علی واصف کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین ذریعہ باعث ہوگی بلکہ ان کی تعلیمات اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں بھی ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔

اس موقع پر وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے کہا کہ بلاشبہ پاکستان کے حالات کٹھن ہیں لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چا ہئے۔ مستقل محنت کوشش کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور قوم کو یہ پیغام دینا ہے کہ جمہوریت کو مضبوط بناتے ہوئے پاکستان آگے بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ملک میں اپنی مرضی کا نظام لانا چاہتے ہیں ہم نے ان کا بھرپور جواب دینا ہے اور پاکستان کو آگے لیکر جانا ہے۔ تقریب میں دیگر مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے واصف علی واصف کی خدمات کو سراہا۔ اس موقع پر واصف خیال سنگت کی طرف سے صدر مملکت کو سوینئر بھی پیش کیا گیا۔

متعلقہ عنوان :