سینیٹ اجلاس، طالبان کا مسئلہ شریعت کا نفاذ نہیں ،قیدیوں کی رہائی ، فوج کی واپسی اور معاوضے کی ادائیگی ہے، اعتزاز احسن

منگل 11 فروری 2014 16:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 11فروری 2014ء) سینیٹ میں اپوزیشن اراکین نے حکومت پر واضح کیا کہ طالبان کا مسئلہ شریعت کا نفاذ نہیں بلکہ قیدیوں کی رہائی ، فوج کی واپسی اور معاوضے کی ادائیگی ہے، ملک میں اقلیت اہل تشیع سمیت دیگر مسالک کے کسی ایک کے حقوق کو کسی صورت پامال نہیں ہونے دینگے، طالبان سے طالبان مذاکرات کررہے ہیں اور ہماری قسمت کا فیصلہ ہونے جارہا ہے ، حکومتی کمیٹی میں اہل تشیع، اقلیت اور خاتون رکن اور پارلیمنٹرین کو بھی شامل کیا جانا چاہئے تھا جبکہ حکومت نے موقف اختیار کیا کہ طالبان منہ سے کچھ بھی کہتے رہیں وہ آئین کو اور پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں ، طالبان کو آئین میں خرابی نظر آتی ہے تو انتخابات لڑ کر دو تہائی اکثریت لیکر پارلیمنٹ میں آئیں جو فیصلہ ہوگا منظور ہوگا، دہشت گردی سے مل کر نبردآزما ہونگے ، نظریئے سے بندوق کبھی نہیں جیت سکی۔

(جاری ہے)

منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں ملک میں حالیہ دہشت گرد سرگرمیوں کے خصوصی حوالے سے سیاسی اور امن وامان کی صورتحال پر ہونیوالی بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا ہے کہ گزشتہ پانچ ماہ سے کراچی آپریشن ہو رہا ہے بہتری کی بجائے رابی میں مزید اضافہ ہوگیا کراچی کے اطراف میں وزیرستان بن گیا ہے کراچی میں ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، یم کیو ایم نے یوم سوگ منایا ایک دولہے کو روک کر گرفتار کیا گیا، چار گھنٹے میں فہد پر اتنا ظلم کیا گیا کہ اسے ہپستال میں داخل کروایا گیا ہمارے دس کارکنوں کو دوران تشدد مارا گیا جبکہ 2000 کارکنوں نے پیسے دیکر رہائی حاصل کی، انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے ابھی تک مانیٹرنگ کمیٹی کیوں تشکیل نہیں دی گئی، کراچی کی عوام گہری تشویش میں مبتلا ہیں ، حکومت کو پابند کیا جائے کہ مانیٹرنگ کمیٹی بنائی جائے اور ایک جوڈیشل ک میشن بھی تشکیل دیا جائے کراچی میں ایک خاص انداز میں آپریشن چلایا جارہا ہے اس آپریشن سے صرف وہی متاثرہ ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح ایم کیوایم سے تعلق ہے، بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سردار یعقوب ناصر نے کہا کہ حکومت نے بہت کوشش کی کہ دہشت گردی کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے، ہمیں طالبان کی مجبوریوں کو سمجھنا چاہئے اور طالبان حکومت کی مجبوریوں کو سمجھیں بہت سے گروپس چاہتے ہیں کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں ہمیں حوصلے سے کام لینا چاہئے ہوسکتا ہے ان دنوں تشدد میں اضافہ ہوسکتا ہے ، انہوں نے کہا کہ آپریشن آسان حل ہے مگر حکومت نے مذاکرات کو ترجیح دی ، ہمیں ایسی کوئی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے مذاکرات پر منفی اثرات مرتب ہوں طالبان کو بھی چاہئے کہ وہ ڈرون حملوں پر حکومت کی مجبوری کو سمجھیں بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کی سینیٹر ڈاکٹر سعیدہ اقبال نے کہا کہ پاکستان کئی سالوں سے حالت جنگ میں ہے اگر یہاں پر ایک دوسرے کے موقف کو تسلیم نہیں کیا جائیگا تو مسائل حل نہیں ہونگے ان مسائل کے حل کیلئے ملک میں سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ جب بھی مسلم لیگ ن کی حکومت برسراقتدار آتی ہے اس نے فاٹا ، پاٹا اور خیبرپختونخوا پر توجہ نہیں دی ان علاقوں کی معاشی صورتحال ابتر ہو جاتی ہے اور یہی وجہ بدامنی کی ہے ، مجھے خوف ہے کہ چترال سے کراچی تک تشدد پسند اٹھ کھڑے ہونگے اور حکومت کے پاس اس سے نمٹنے کیلئے وسائل نہ ہونگے، انہوں نے کہا کہ فاٹا، پاٹا اور کے پی کے میں بیروزگاری کے خاتمے کیلئے وسائل پیدا کئے جائیں۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر کاظم خان نے کہا کہ ملک کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں دہشت گردی نہ ہو، حکومت کی طالبان سے مذاکرات کی سمجھ نہیں آئی مذاکرات کے حامی ہیں لیکن یہ تو بتایا جائے کہ مذاکرات کس سے ہو رہے ہیں، فضل اللہ افغانستان میں ہیں ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے مذاکرات ہمیشہ عوام اور میڈیا کے پس پردہ ہوتے ہیں سب چیزیں قوم کے سامنے لمحہ بہ لمحہ نہیں رکھی جاتی جب کوئی چیز فائنل ہو تو قوم کے سامنے آنی چاہئے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ مذاکرات کے عمل کو حکومت اپنے پاس رکھے اور مناسب وقت پر سب کوآگاہ کرے۔ روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر لوگ بحث کرتے ہیں جب تامل ٹائیگرز سے مذاکرات ہوئے تھے تو اس وقت ٹی وی پر بیٹھ کر کوئی بات نہیں کرتا تھا، مسلم لیگ (ن) کی حکومت جب بھی آتی ہے وہ متاثرہ علاقوں کو دی گئی مراعات بھی واپس لے لیتی ہے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے اے این پی کے سینیٹر عبدالنبی بنگش نے کہا کہ مذاکرات کے عمل کی سربراہی وزیر داخلہ کو کرنی چاہئے تھی، طالبان کمیٹی پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، طالبان نے ان کو جو بھی بتایا ہوگا یہ اس پر پردہ پوشی کرینگے، ریاست کمزوری کا مظاہرہ کررہی ہے، طالبان کا مطالبہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو رہا کرو اور فوج کو واپس بلاؤ، کیسے مذاکرات ہیں ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں اور ہم جنازے اٹھا رہے ہیں ، حکومت مولانا عبدالعزیز سے پوچھے کہ انہوں نے کیوں کہا کہ فوجیوں کے جنازے جائز نہیں، بحث میں حصہ لیتے ہوئے قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے ، طالبان مات پر مات دے رہے ہیں ، حکومت شدت پسند گروپ سے برابری کی سطح پر مذاکرات کررہی ہے۔

وزیراعظم اس ایوان کو اہمیت نہیں دیتے ، وزیر داخلہ بھی یہاں تشریف لانے کو تیار نہیں، انہوں نے کہا کہ ملک دہشت زدہ ہے اور حکومت مورچہ بند ہے، ہونا چاہئے تھا حکومت دلیری کے ساتھ مذاکرات کرتی اور کمیٹی میں ایک اہل تشیع، ایک قلیتی نمائندہ اور ایک خاتون ہوتی ، پارلیمنٹرین ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا، کہا جارہا ہے کہ آئین اسلامی ہے لیکن اس کو مزید اسلامی کرنا ہے، حکومت آئین کے اندر رہ کر مذاکرات کرے، ایک مسلک کے طبقے کے مطابق پاکستان کا آئین کے کردیا جائے ہم کو یہ منظور نہیں، مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کی عورت کسان، اقلیت اہل تشیع اور دیگر مسالک کسی ایک کے حقوق کو کسی صورت پامال نہیں ہونگے اس وقت لگتا ہے کہ طالبان سے طالبان کے مذاکرات ہو رہے ہیں اور فیصلہ ہماری قسمت کا ہونے جارہا ہے، طالبان الماری کے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں کا چہرہ الماری کھول کر سب کے سامنے لے آئے حکومت نے آئین کے تحت حلف اٹھایا ہوا ہے دوسرا فریق بار بار کہہ رہا ہے کہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے جنہوں نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا وہ ایک لفظ بھی نہیں کہ رہے طالبان کا شریعت کا مسئلہ نہیں ان کا مسئلہ قیدیوں کی رہائی کا ہے اس وقت 4700 قیدی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ فوج کو علاقے سے واپس بلا لیا جائے اور انہیں معاوضہ دیا جائے یہ سب کچھ ملنے کے بعد ریاست بنانے میں کیا مسائل رہ جاتے ہیں، ہم مذاکرات کے کبھی خلاف نہیں اپوزیشن نے تمام تحفظات کو محفوظ رکھتے ہوئے خوش دلی کیساتھ ہمیں حکومت کی پسپائی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا پھر بھی مذاکرات کی حمایت کی یہ کوئی حل نہیں کہ بندوق کے زور پر ملک کے آئین کو تبدیل کیا جائے حکومت کو چاہئے تھا کہ طالبان پر واضح کرتی کہ ہماری عورتیں پارسا ہیں اقلیتوں اور اہل تشیع کو تحفظ فراہم کرینگے، ب بندوق، اور ٹ ٹینک کے قاعدے پڑھ کر ایک ذہن بن چکا ہے اس کو تبدیل کرنا ہے، فاٹا اور شمالی وزیرستان میں آپریشن سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ، تیس فیصد طالبان ان علاقوں میں ہیں جبکہ باقی ستر فیصد پورے ملک میں ہیں جب گاڑی لاہور کراچی میں پھٹتی ہے وہ فاٹا سے نہیں آتی ان ہی علاقوں میں تیار ہوتی ہے حکومت بدقسمتی سے مفلوج ہے ان مسائل کو انٹیلی جنس کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے ، بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ مذاکرات کی ابتداء ہوئی ہے کوئی فیصلہ نہیں ہوا جب جی ایچ کیو پر حملہ ہوا تواس وقت کی حکومت نے کیا تدارک کیا، بینظیر کے قاتلوں سے حکومت نے مفاہمت کی، منت کر کے سوات میں معاہدہ کیا گیا ۔

طالبان منہ سے کچھ بھی کہتے رہیں وہ آئین کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور پاکستان کو بھی تسلیم کرتے ہیں پھر ان کا نام تحریک طالبان پاکستان کیوں ہے مسلم لیگ ن ایک وفاق پاکستان کی پارٹی ہے آج تک کسی صوبے کا نعرہ نہیں لگایا ، بعض لوگ ذرا سی بات پر صوبائیت کو ہوا دیتے ہیں کوئی کسی فرقے کیخلاف ہتھیار اٹھائے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں ملک کا آئین شریعت کے مطابق ہے ، آئین اور قانون میں خرابی ہے تو دو تہائی اکثریت لیں اور انتخابات کرائیں اور پارلیمنٹ میں آ کر بیٹھیں جو فیصلہ کرینگے منظور ہوگا، پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے اس طرح کے بنیادی فیصلے نہیں ہوسکتے، اس وقت پورے پاکستان کا مسئلہ ہے سب کو صبر کے ساتھ انتظار کرنا چاہئے تاکہ دہشت گردی ختم ہو ملکی معیشت برباد ہوچکی ہے ریاست کی رٹ قائم ہو سب مل کر اس سے نبردآزما ہونگے تو کامیاب ہونگے ، نظریئے سے بندوق کبھی نہیں جیت سکی۔

متعلقہ عنوان :