امن و امان کی سنگین صورتحال ،مسلم لیگ (ق) نے 9مارچ کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا ،کراچی کے آپریشن میں کوئی رزلٹ نہیں آیا ہے۔بھتہ خوری کی صنعت عروج پر ہے ،صوبائی صدر حلیم عادل شیخ کی پریس کانفرنس

پیر 10 فروری 2014 19:22

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10 فروری ۔2014ء) مسلم لیگ قائد اعظم سندھ نے امن و امان اور بڑھتی ہوئی سنگین وارداتوں اور موجودہ سیاسی صورتحال پر 9 مارچ کو آل پارٹی کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا۔ مسلم لیگ قائد اعظم سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے اپنے اندرون سندھ کے 10روزہ دورے سے متعلق کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ سندھ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے صحافی شان ڈہر کے قاتل تو نہ پکڑے جاسکے مگر وزیر اعلی کے مشیر کی بھینسیں چوری ہوجائیں تو انہیں آزاد کرانے کے لئے پولیس کی 13 موبائلیں اور ڈی ایس پی موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔

کراچی آپریشن کی سمت تبدیل ہوچکی ۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ صوبائی جنرل سیکرٹری غلام رئیس سرور سیال، ایڈیشنل سیکرٹری جنرل جی آر بلوچ، کراچی کے رہنما جعفرالحسن، عبدالطیف رند، نعیم عادل شیخ، سلطان بھٹی، شیخ اقبال و دیگر بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

حلیم عادل شیخ نے اغوا کے بعد قتل ہونے والے معصوم بچوں اور نوجوانوں کی تشدد آمیز تصاویر میڈیا کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ہم مسکینوں اور غریبوں کی بات کرتے ہیں، حکومت ہر محاذ میں فیل ہوچکی ہے۔

ا نہوں نے اس معاملے جلد ہی حکومت کی کارکردگی پر ایک وائٹ پیپرجاری کرنے کا اعلان بھی کیا۔جبکہ انہوں نے صنعت و حرفت ، زراعت اور صوبے میں لاء اینڈ آرڈر کے مختلف ایشوز پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میں نے مسلم لیگ کی تنظیم نو اور عام آدمی کے مسائل جاننے کیلئے 26 جنوری کو سندھ کا دورہ شروع کیا جس میں میں نے 9 سے زائد اضلاع کیگاؤں اور تحصیلوں کا دورہ کیا۔

پورے سندھ میں 62 سے 65 افراد اغوا ہوچکے ہیں لوگ شام کے بعد گھروں سے نکلنے میں ڈرتے ہیں۔ دولت پور میں اسکول وین حادثے میں شہید ہونے والے بچوں کے قاتلوں کو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ وزیر اعلی سندھ کے اپنے ضلعے میں 10 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی اور ملزمان ابھی تک مفرور ہیں۔ وزیر اعلی کے مشیر کی ایک آواز پر حکومت کی مشینری حرکت میں آجاتی ہے اور ایک غریب کی بچی کی عزت لٹ جائے تو کوئی نہیں آتا۔

لاڑکانہ میں گلزار سومرو کا واقعہ بھی اتنا ہی دردناک ہے، بنگوار گوٹھ میں پولیس کے 2 ایس ایچ او اپنے ایک پیٹی بھائی کے قاتلوں کو پکڑنے کیلئے پولیس موبائلوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار سپاہیوں کے ساتھ گوٹھ کے 50 سے زائد گھروں کو مسمار کردیتے ہیں اور 10 کے قریب افراد جن میں 6 بچے اور 4 خواتین جن میں ایک خاتون حاملہ تھی کو قتل کردیا جاتا ہے اور اس پر کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ قاتل ایس ایچ او وڈیروں کا خدمتگار ہونے کی بناء پر اپنے گھر میں سکون سے بیٹھا ہے۔

کرسچن کالونی پرانا سکھر میں 2 بچے دن دیہاڑے اغوا کرلئے جاتے ہیں جبکہ پولیس دوسرے دن ان کی لاشیں لاکر کہتی ہے کہ وہ ڈوب کر مر گئے ہیں جبکہ دوسرے دن ان کا قاتل بھی غیرت کا انجکشن لگنے پر سامنے آجاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اہم رہنما کے اپنے علاقے کیری کوارٹر پرانا سکھر میں گل محمد انڑ کے 8 بچے بااثر وڈیروں کی دشمنی کی بنا پر اغوا کے بعد مار دیئے جاتے ہیں تشدد زدہ لاشوں کی پوسٹ مارٹم بھی پولیس بدل دیتی ہے۔

اغوا ہونے والوں کے لواحقین اس ڈر سے شور بھی نہیں مچاتے کہ کہیں بااثر وڈیرے ان کے مزید لخت جگر کو نہ مار ڈالیں۔ وڈیروں، جاگیرداروں، نوابوں کا ٹولہ اسمبلیوں میں بیٹھا ہے اور ان کے چمچے پولیس کی سرپرستی میں اغوا کاروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ عام سندھی سمیت ہندو کمیونٹی کے لوگ بھی اغوا ہورہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ کراچی کے آپریشن میں کوئی رزلٹ نہیں آیا ہے۔

انہوں نے کرائم پر بننے والی ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میڈیا کو دکھاتے ہوئے کہا کہ آپریشن کے روز سے لے کر اب تک دہشت گردی کے 9 بڑے اٹیک ہوچکے ہیں، بھتہ خوری کی صنعت عروج پر ہے۔ پچھلے سال 109 کیسسز تھے اس سال آپریشن کے باوجود 248 کیسسز سامنے آئے ہیں۔ پولیس کسی اغوا کار، بھتہ خور یاس اسٹریٹ کرائم کے مجرم کو پکڑ بھی لیتی ہے تو عدالت انہیں چھوڑ دیتی ہے۔

سندھ گورنمنٹ عوام کو پاگل بنا رہی ہے۔ کراچی آپریشن سیاسی مصلحت کا شکار ہوچکا ہے۔ پورے سندھ میں جس انداز میں نوکریوں کو بیچا گیا اس پر بھرتی ہونے والے کسی ایک ملازم کو بھی تنخواہ نہ مل سکتی ہے اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ اداروں کو پرائیویٹائز کیا جارہا ہے۔ میں نے اپنے دورہ سندھ میں ڈیڑھ سو روپے کی خاطر غریب عوام کو دوا نہ ملنے پر سسک سسک کرمرتے دیکھا ہے۔

اندورن سندھ میں ڈاکووں کا راج ہے جس میں اب تک 62 سے زیادہ اغوابرائے تاوان کی وجہ سے گمشدہ ہیں اور پولیس انہیں بازیاب نہیں کراسکی ہے ،پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما نے بھی اپنے ایک بیان میں اس بات کا زکر کرچکے ہیں جنھوں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو بازیاب کرائے۔سندھ بھر میں ڈکیتیاں،چوریاں ،راہزنی روز کا مومعمول ہے ،ماؤں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں ،جاہلیت کے زمانے کے جرگہ کے فیصلوں کی وجہ سے بہت سی خواتین کی اجتماعی عصمت دری اب کی جارہی ہے اس کا ایک واقع پریس شائع بھی کرچکا ہے ۔

آپ کسی بھی سندھ کے اخبار کو اٹھالیں تو وہ اسی طرح کی سنگین وارداتوں سے بھرا ہوتا ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت کی رٹ سندھ میں کہیں بھی نظر نہیں آتی ہم ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ حکومت ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اغوا برائے تاوان، چوری ڈکیتی اور اجتماعی عصمت دری کے واقعات کاموثر حل تلاش کرے۔ اساتذہ غیر حاضر ہیں وڈیروں نے اسکولوں کو مال مویشیوں کے لئے استعمال کررکھا ہے۔

صحت کے نام کی کوئی چیز نہیں، سرکاری اسکول بند ہیں اور اسٹاف گھر بیٹھے تنخواہیں لیتا ہے اس کے لئے حکومت سندھ وڈیروں سے اسکولوں کو وارگزار کرائے اور یہ تمام اقدامات فوری نہ کئے گئے تو ڈاکوؤں کا یہ راج سندھ میں ایک اور فاٹا اور وزیرستان طرز کا علاقہ بن جائے گا۔ 2013 کے مقابلے میں اگر کراچی کی صورتحال کا ذکر کریں تو 2014 کے ابتدا میں ہی اغوا، ٹارگٹ کلنگ، راہزنی اور دیگر تشدد کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جوکہ تشویشناک ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ آپریشن سیاسی مصلحت کا شکار ہوچکا ہے اور اپنے اصل مقاصد سے ہٹ رہا ہے ہم چاہتے ہیں کہ یہ آپریشن سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہوکر خصوصا جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا جائے۔