سندھ اسمبلی اجلاس،ایم کیو ایم کا اپنے کارکن پر تشدد کیخلاف واک آؤٹ، سادہ لباس میں پولیس والے سیاسی کارکنوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں ِپھر ان کی لاشیں ملتی ہیں،سید فیصل سبزواری ،گزشتہ بیس پچیس روز سے کراچی میں بے گناہ لوگوں کا خون کیا جارہا ہے ، حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں سکتی،شرجیل انعام میمن

پیر 10 فروری 2014 18:31

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10 فروری ۔2014ء) سندھ اسمبلی میں پیر کو متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن فہد عزیز کی شادی کے موقع پر گرفتاری اور ان پر پولیس تشدد کے خلاف پیر کو ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے اجلاس سے احتجاجاً واک آوٴٹ کیا ، جو اجلاس کے خاتمے تک جاری رہا ۔ قبل ازیں اپوزیشن لیڈر فیصل سبزواری نے کہا کہ پولیس کی اس کارروائی سے تعصب اور نفرت کی بو آ رہی ہے ۔

وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ کسی ایک جماعت کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے ۔ ٹارگیٹڈ آپریشن کا مقصد کراچی میں امن قائم کرنا ہے ۔ کراچی کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے ۔ گذشتہ بیس پچیس روز سے کراچی میں بے گناہ لوگوں کا خون کیا جارہا ہے ۔ حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں سکتی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ یونیفارم پہن کر اگر چند پولیس اہلکار کوئی غلط کام کرتے ہیں تو پورے ادارے کو خراب نہیں کہا جا سکتا ۔

کراچی کے پولیس چیف اور ڈی آئی جیز ایک بہترین ٹیم ہیں ۔ وہ دیانت داری کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایک جماعت کے ٹارگٹ کلرز گرفتار ہوئے ہیں لیکن ان کی وجہ سے پوری سیاسی جماعت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور پولیس کی طرف سے کوئی تعصب نہیں کیا جارہا ۔ سب سے زیادہ مقابلے لیاری میں ہوئے ۔

ہم نے نہیں کہا کہ بلوچوں کے خلاف تعصب برتا جارہا ہے ۔ اگر فورسز پر حملہ ہو گا تو وہ بھی اس کا جواب دیں گی ۔ پیپلز پارٹی نے کبھی بھی تعصب کی سیاست نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے والوں سے کراچی کو نجات دلائی جائے ۔ اس کے لیے حکومت کو جس حد تک بھی جانا پڑا ، وہ جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں فوجی آپریشن کرانے کا مطالبہ بھی ہوا اور یہ سب کو پتہ ہے کہ یہ مطالبہ کس نے کیا تھا ۔

اگر فوج آپریشن کرتی تو اور زیادہ مسائل پیدا ہوتے ۔ انہوں نے کہا کہ جن پولیس افسروں نے 1992 ء کے آپریشن میں حصہ لیا تھا ، انہیں چن چن کر شہید کیا گیا ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ انہیں کس نے شہید کیا ۔ ان کے بچے جا کر کس سے انصاف مانگیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پولیس کسی پر تشد نہ کرے ، چاہے وہ مجرم ہو یا نہ ہو ۔ ایم کیو ایم کے کارکن کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے ، حکومت اس کا ازالہ کرے گی ۔

حکومت نے اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور 4 پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے ۔ ڈی آئی جی پولیس کی سطح پر انکوائری کرائی جا رہی ہے ، جس کی رپورٹ آج مل جائے گی ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس تشدد کا خود نوٹس لیا ہے ۔ واک آوٴٹ سے پہلے فیصل سبزواری نے کہا کہ ایک سیاسی کارکن فہد عزیر کو اس وقت گرفتار کیا گیا ، جب وہ اپنی دلہن کو رخصت کرکے لے جارہا تھا ۔

تین دن بعد کوئی جرم ثابت نہ ہونے پر پولیس نے انہیں رہا کردیا ۔ جس دولہا کے سر پر سہرا سجایا گیا تھا ، اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ انہوں نے فہد عزیز کی تصاویر بھی ایوان کو دکھائیں ۔ ان تصاویر میں فہد عزیز پر تشدد کے نشانات موجود تھے ۔ فیصل سبزواری نے کہا کہ کیا یہ کسی دولہا کی تصویر ہے ، اسے مسکراہٹ کی سزا دی گئی ہے ۔ اگر وہ دہشت گرد ہوتا تو دھوم دھام سے اپنی شادی کرنے کے بجائے کہیں اور ہوتا ۔

کراچی پولیس چیف نے اس کی گرفتاری پر پولیس کے لیے انعامات کا اعلان کردیا اور یہ بھی کہا کہ فہد عزیز نے پولیس والوں کو مارا ہے ۔ کراچی پولیس کا یہ بیان متعصبانہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سادہ لباس میں پولیس والے سیاسی کارکنوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ پھر ان کی لاشیں ملتی ہیں ۔ ہمارے درجنوں افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے جبکہ درجنوں لاپتہ ہیں ۔ نہ صرف ٹارگیٹڈ آپریشن کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ لوگوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے گی اور اس امر کو یقینی بنائے گی کہ آئندہ کسی معصوم کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو ۔