کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جنگ بندی پر مشروط آمادگی ظاہر کردی ،سیز فائر کیلئے تیار ہیں حکومت بھی جنگ بندی کااعلان کرے ، قبائلی علاقوں فورسز واپس بلائی جائے ، اکرات شریعت کے دائرہ کار کے اندر ہونے چاہئیں ، قیدیوں کوبھی رہا کیا جائے ، طالبان کے مطالبات ،طالبان نے حکومت کی اکثر شرائط مان لی ہیں جس میں آئین کے دائرے میں مذاکرات کا نکتہ شامل ہے ، نجی ٹی وی ،اجلاس (کل) بھی جاری رہنے کا امکان ، آئندہ دو روز میں مولانا سمیع الحق کی شرکت متوقع، حکومت مخلص ہے طالبان حملے نہ کریں ، مذاکراتی عمل کامیاب بنانے کیلئے حکومت کو مشکل میں نہ ڈالا جائے ، رابطہ کار کمیٹی ،شمالی وزیرستان سے پروفیسر ابراہیم کا مولانا سمیع الحق سے رابطہ ،طالبان کی سیاسی شوریٰ سے ملاقات میں پیشرفت سے آگاہ کیا ، حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کیلئے پر امید ہیں ، عوام ختم قرآن کا اہتمام کریں ،سمیع الحق ،حکومت نفاذ شریعت کا بنیادی مطالبہ ماننے سے ہی انکار کر چکی ہے ، مذاکرات سے زیادہ پر امید نہیں ، مولانا عبد العزیز

اتوار 9 فروری 2014 20:08

میرانشاہ/اکوڑہ خٹک /اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9 فروری ۔2014ء) کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جنگ بندی پر مشروط آمادگی ظاہر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سیز فائر کیلئے تیار ہیں حکومت بھی جنگ بندی کااعلان کرے جبکہ نجی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان نے حکومت کی اکثر شرائط مان لی ہیں جس میں آئین کے دائرے میں مذاکرات کا نکتہ شامل ہے ،اجلاس (کل) پیر کو بھی جاری رہنے کا امکان ہے آئندہ دو روز میں مولانا سمیع الحق کی شرکت بھی متوقع ہے۔

ذرائع کے مطابق پروفیسر ابراہیم اور یوسف شاہ خیبر پختون خوا حکومت کے فراہم کردہ دو ہیلی کاپٹرز پر شمالی وزیرستان پہنچے ان کی رہنمائی کیلئے پولیٹیکل انتظامیہ کا ایک اہلکار بھی ساتھ تھا۔ کمیٹی کے ارکان شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ پہنچ کر نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوئے جہاں طالبان کی سیاسی شوریٰ کے اراکین سے ان کی ملاقات ہوئی۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں حکومتی کمیٹی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پر بات چیت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے کہاکہ طالبان سیز فائر کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ حکومت بھی سیز فائر کا اعلان کرے ،طالبان قیادت نے طالبان کمیٹی کو مختلف مطالبات پیش کیے ہیں جن میں مذاکرات قرآن و سنت کے مطابق کیے جائیں ،طالبان اکثریتی علاقوں سے فوجی دستوں کی واپسی اور کئی طالبان رہنماؤں کی رہائی شامل ہے ۔

سیاسی شوری کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کے بعد سیاسی شوریٰ کے سربراہ قاری شکیل اور مرکزی نائب امیر شیخ خالد حقانی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ذرائع کے مطابق کالعدم تحریک طالبان نے پہلے روز کے اجلاس میں مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کو اپنے تین مطالبات دیئے جن میں مذاکرات شریعت کے دائرہ کار کے اندر ہونے چاہئیں، شورش زدہ علاقوں سے فوج کی واپسی اور پاکستانی جیلوں میں قید طالبان قیدیوں کی رہائی کے مطالبات شامل ہیں ذرائع کے مطابق طالبان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ متاثرین کو معاوضہ ادا کیا جائے ذرائع کے مطابق کالعدم طالبان نے موقف ظاہر کیا کہ مذاکراتی عمل شریعت کے مطابق جاری رہنا چاہیے اور ہمارے لئے آئین سے زیادہ شریعت مقدم ہے جس پر کمیٹی نے کہاکہ حکومت پاکستان مذاکرات میں مخلص ہے طالبان حملے نہ کریں اور مذاکراتی عمل میں ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو حکومت کے دائرہ کار سے باہر نہ ہو اور مذاکراتی کمیٹی کو مکمل بااختیار بنایا جائے ایک انٹرویو میں مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے حکومت کی کمیٹی کے ساتھ بات چیت کو مفید قرار دیتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم نوازشریف مذاکرات کے حوالے سے مخلص ہیں اور قوم بھی مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعاگو ہے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس (کل) پیر کو بھی جاری رہنے کا امکان ہے آئندہ دو روز میں مولانا سمیع الحق کی شرکت بھی متوقع ہے، طالبان سیاسی شوری نے مذاکراتی کمیٹی کو مکمل سیکورٹی بھی فراہم کی۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے حکومت کی اکثر شرائط مان لی ہیں جس میں آئین کے دائرے میں مذاکرات کا نکتہ بھی شامل ہے ذرائع کے مطابق طالبان کی جانب سے ابتدائی مرحلے میں شریعت کے نفاذ کی شرط نہیں رکھی گئی جس سے پہلے مذاکرات کیلئے سازگارماحول اور دونوں طرف سے کارروئیوں کا بند ہونا ضروری ہے ادھر طالبان کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے لیے پر امید ہیں۔

جامعہ حقانیہ سے جاری کردہ بیان کے مطابق مولانا سمیع الحق نے بتایا کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ختم قرآن اور ختم بخاری شریف شروع کر دیا گیا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے تمام مسلمانوں اور دینی مدارس سے اپیل کی کہ وہ بھی مذاکرات کی کامیابی کیلئے ختم قرآن شریف اور ختم بخاری شریف کا اہتمام کریں۔ دوسری جانب شمالی وزیرستان سے پروفیسر ابراہیم نے مولانا سمیع الحق سے رابطہ کیا ہے ، ذرائع کے مطابق پروفیسر ابراہیم نے طالبان کی سیاسی شوریٰ سے ملاقات میں پیش رفت سے آگاہ کیا ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔

دوسری جانب مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مذاکراتی عمل کو کارخیر سمجھ کر پورے دل سے شریک ہیں ،حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی کامیابی کیلئے پر امید ہیں۔ دوسری جانب طالبان کمیٹی میں شامل رکن مولانا عبد العزیز نے ایک انٹرویومیں کہا کہ حکومت نفاذ شریعت کا بنیادی مطالبہ ماننے سے ہی انکار کر چکی ہے، ایسے میں حکومت اور طالبان کمیٹی کے مذاکرات سے وہ زیادہ پر امید نہیں ہیں۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ طالبان اور مولانا سمیع الحق سے دو روز کے دوران کوئی رابطہ نہیں ہوا،موجودہ صورتحال میں حکومت اور طالبان کمیٹی کے مذاکرات سے زیادہ پر امید نہیں،اگر حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہو بھی گیا توخدشہ ہے کہ عارضی ہو گا، مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ دستور کا ڈھانچہ انگریزی قوانین پر مبنی ہے اس لیے ملکی آئین غیر اسلامی ہے،جس میں کہیں کہیں اسلامی شقوں کی پیوند کاری ہے، یہ کہنا سفید جھوٹ ہے کہ قرآن و سنت کو آئین میں سپریم لاء کا درجہ حاصل ہے۔