موجودہ دور حکومت میں بجلی کے بحران پرقابو پانے کا وعدہ پورا کر ینگے،ایک ڈیڑھ سال تک گیس کی کمی کا مکمل خاتمہ ہو جائیگا، وزیر اعظم ، مذاکرات کیلئے دونوں طرف سے قائم کمیٹیاں ایک دوسرے سے مل رہی ہیں اوربات کر رہی ہیں قوم کو اعتماد میں لیا جارہا ہے ، نواز شریف کا ایف پی سی سی آئی کی 37ویں سالانہ ایکسپورٹ ایوارڈ کی تقریب سے خطاب ،میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 8 فروری 2014 15:42

لاہور( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 8فروری 2014ء) وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ موجودہ دور حکومت میں بجلی کے بحران پرقابو پانے کا وعدہ پورا کر یں گے جبکہ ایک سے ڈیڑھ سال تک گیس کی کمی کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا ،اگر درست پالیسیاں بنائی جاتیں تو ملک میں کبھی بھی دہشتگردی نہ ہوتی جسکی وجہ سے پوری پاکستان قوم کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور آج بھی اس میں کمی نہیں ہوئی ، سالہا سال پرانی بیماریوں کو ٹھیک کرنے کے لئے وقت درکار ہے ، جمہوریت کی منتقلی اچھی بات ہے اور اب اہمیں افہام و تفہیم اور برد باری کے ساتھ ایک دوسرے سے تعلق رکھنا چاہیے ،پاکستان سے بہت کھیل کھیل چکے اب مزید کھیل کھیلنے کی گنجائش نہیں ،معیشت ‘ دہشتگردی کا مقابلہ ہو اور پاکستان میں امن و امان کے معاملے پر کسی قسم کی سیاست نہیں ہونی چاہیے ،ہمیں جی ایس پی پلس کا درجہ تو مل گیا ہے لیکن جب اندسٹری نہیں چلے گی تو اسکا کیا فائدہ ؟،مذاکرات کیلئے دونوں طرف سے قائم کمیٹیاں ایک دوسرے سے مل رہی ہیں اوربات کر رہی ہیں ‘کمیٹی کے اراکین نہ صرف قوم کو اعتماد میں لے رہے ہیں بلکہ رمیڈیا کو بھی پیشرفت سے آگاہ کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز مقامی ہوٹل میں ایف پی سی سی آئی کے 37ویں سالانہ ایکسپورٹ ایوارڈ کی تقریب سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پرگورنر بلوچستان ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان‘ وفاقی وزیر تجارت اور ایف پی سی سی آئی کے سبکدوش ہونے والے اور نو منتخب عہدیداران بھی موجود تھے ۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ میں ایف پی سی سی آئی کی سالانہ تقریب میں شرکت کرکے نہایت خوشی محسوس کر رہا ہوں اور فیدریشن کو گزشتہ 36سالوں سے پر وقار تقریب باقاعدگی سے منعقد کرانے پر مبارکباد دیتا ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ میں 37ویں ایکسپورٹ انعام یافتگان کو بھی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور چیمبر کی سالانہ تقریب ان کمپنیوں کو اپنی کارکردگی منوانے کا بہترن موقع فراہم کرتا ہے جو ایک جامع انداز مین انتظامی امور میں بہتری پیدا کر کے اپنے کاروبار میں ترقی اورسبقت او رپائیداری حاصل کرتی ہیں۔ کمپنیاں اس موقع کو نہ صرف اپنی کارکردگی کے لئے ایک معیار سمجھتی ہیں بلکہ اس کے ذریعے اپنے کاروبار میں مزید وسعت پیدا کرتی ہیں ۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ موجودہ گلوبل دنیا میں تجارت کی بنیاد روایتی تقابل اور فوقیت سے ہٹ کر اب مختلف ڈائریکشن اختیار کر گئی ہے اب تجارت کی شرط ،شرائط ایک فرم اور ادارے یا ملک کی اہلیت کی بنیاد پر طے کی جاتی ہیں جو جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی بدولت پیدا کردہ اشیاء کو گلوبل مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں اس سلسلہ میں پرائیویٹ سیکٹر کا کردار اہمیت کا حامل ہے او رمیں ہمیشہ پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں حکومت کم سے کم ہونی چاہیے اور جس کا کام اسی کو ساجھے کا اصول کارفرما ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام نہیں فیکٹریاں ں ،ہوٹل یا بزنس کے ادارے چلانا نہیں اس لئے میرا مضبوط موقف ہے اور میں اس اصول کو مانتا ہوں اورمیرا پختہ یقین ہے کہ جب سے ہماری حکومت آئی میں نے ہمیشہ پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں وہ دن انتہائی افسوسناک تھا جب پاکستان کے اندر نیشنلائزیشن ہوئی تھی اور قومی اداروں کو نیشنلائز کیا گیا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بد قسمت دن تھا ورنہ اس سے پہلے پاکستان کس تیزی کے ساتھ دنیا میں ترقی کر رہا تھا ۔ پورے پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر اس خطے میں سب کو پیچھے چھوڑتے جارہا تھا بلکہ ہم جنوبی کوریا کو بھی پیچھے چھوڑ رہے تھے ۔

پنجاب ‘ خیبر پختوانخواہ ‘ سندھ اور بلوچستان کے اندر معاشی سرگرمیاں نظر آتی تھیں اور پاکستان کی ایکسپورٹ تیزی آگے بڑھ رہی تھی لیکن اگر اگر اس کو اسی طرح آگے بڑھنے دیا جاتا آج پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا جو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہاں پر بیروزگاری اور مہنگائی کا کہیں ذکر نہ ہوتا ۔ غربت کا وجود نہ ہوتا جہالت کا وجود نہ ہوتا اور پاکستانی پڑھی لکھی قوم بن چکے ہوتے ۔

انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے نیشنلائزیشن میں تعلیمی اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا ، انشورنس کمپنیوں اور بینکوں کو نیشنلائز کر دیا اور یہ بتدریج اربوں کھربوں کے نقصان میں چلے گئے اور جب ہم نے انہی بینکوں پرائیوٹائز کیا گیا تو یہ فائدہ میں گئے بلکہ نہ صرف انہوں نے خود اربوں روپے منافع کمایا بلکہ حکومت کو اربوں روپے ٹیکس دے رہے ہیں ۔

جو ادارے نیشنلائز ہوئے وہ بند پڑے تباہی پھیرتے رہے ۔ ان اداروں میں اپنی مرضی کے لوگوں کی سیاسی بھرتیاں کی گئیں جس سے یہ ادارے نہ صرف اپنی ایکسپورٹ کو قائم رکھ سکے بلکہ پیداوار گرتی چلی گئی پیسے بنانے والے اورجیبیں بھرنے جیبیں بھرتے رہے آج ان اداروں کا حال دیکھیں تو یہ پاکستان کی تباہی کا نقشہ پیش کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بڑی مشکل سے انہیں ریوائز کیا اگر یہ نجکاری نہ ہوتی تو یہ ادارے بھی ختم ہو چکے ہوتے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب کو ماننا ہوگا کہ ہم نے بنیادی غلطیاں کی ہیں جسکا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی اور اسکے بعد پاکستان میں ترقی نام کی چیز ختم ہو گئی ۔ کیا ہمارے دور میں غلط کام ہو رہے تھے جو اس ملک کو توڑنے کی ضرورت پیش آ گئی ۔ ہمارے دور میں پاکستان کے اندر موٹر ویز بن رہی تھی ایک نئی معاشی سرگرمیاں شروع ہو گئی تھیں ۔ سٹاک مارکیٹ بڑھ رہی تھی اور پاکستان ریکارڈ گروتھ پیش کر رہا تھا جو7.7چلا گیا تھا اور اس ملک کے اندر نئے نئے منصوبے لوگ لگا رہے تھے اور بیرون ممالک سے پاکستانی آ کر سرمایہ کاری کر رہے تھے ۔

کمیونیکیشن میں کام ہو رہا تھا اور پھر دفاعی ادارے بھی اسی سے فائدہ اٹھا رہے تھے کیونکہ جب اداروں سے ریو نیو آئے گا تو ہم دفاع کے لئے بجٹ بڑھائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ اسکے بعد پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ۔حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کا ایسا امیج بن گیا کیونکہ لوگ سمجھتے تھے کہ جہاں بھی دہشتگردی ہوتی ہے تو اسکی ابتداء پاکستان سے ہوتی ہے اورپاکستان اسکے پیچھے ہے ۔

ہم یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے کہ اسٹیٹ ایکٹرز اور نان اسٹیٹ ایکٹرز اسکے پیچھے ہیں بلکہ ہماری پالیسیاں غلط تھیں جسکی وجہ سے پاکستانی قوم کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور آج بھی اس میں کمی نہیں ہوئی ۔اگر ہماری پالیسیاں درست ہوتیں تو پاکستان میں کبھی دہشتگردی نہ ہوتی ، فرقہ واریت ہماری غلطیوں کا نتیجہ ہے اس کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو لگی بیماریاں سالوں پرانی ہیں انہیں ٹھیک کرنے کے لئے بھی وقت درکار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی منتقلی اچھی بات ہے اب ہمیں افہام و تفہیم اور برد باری کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھنا چاہیے ۔ پاکستان میں بہت کھیلے جا چکے ہیں یہاں مزید کھیل کھیلنے کی گنجائش نہیں ۔ ہمیں فہم و فراست کے ساتھ معاملات کوچلانا ہوگااور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہوگا ۔

معیشت ‘ دہشتگردی کا مقابلہ ہو یا پاکستان میں امن و امان کی بات ہو ہمیں اس پر کسی قسم کی سیاست نہیں کرنی چاہیے ۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ گزشتہ حکومت ہماری لئے بہت سے مسائل چھوڑ گئی ہے ۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ سابقہ حکومت اپنی سے پچھلی حکومت کی خرابیوں کو دور کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ بجلی بحران مشرف دور سے ہے ہم سے پچھلی حکومت کو اسے دور کرنے کیلئے اقدامات کرنا چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔

اب ہماری باری آئی ہے لیکن ہم اپنی ذمہ ادریوں سے غافل نہیں ۔ ہمیں تو نیند نہیں آتی کہ اتنے بڑے بڑے چیلنجز اور مسائل ہیں ا ن کو اتنے مختصر عرصے میں کس طرح حل کرینگے لیکن ہم بتدریج ا س کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ہماری حکومت آتے ہی ہمیں پانچ سو ارب روپے دینا پڑا حالانکہ یہ پچھلی حکومت کو دینا چاہیے تھا یہ انکے کرنے کا کام تھا انہیں چاہیے تھاکہ سلیٹ کلین کر کے ہمیں دے کر جاتے لیکن وہ ہمارے کندھوں پر ڈال گئے ۔

لیکن ہم نے ذمہ داری محسوس کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ابھی سننا پڑتی ہیں کہ بجلی نہیں آرہی گیس نہیں آرہی لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں آٹھ سے دس ہزار کا شارٹ فال ہو ایک دن میں پورا نہیں ہو سکتا یہی صورتحال گیس کی بھی کہ سالوں سے اس کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے لیکن مستقبل کے بارے میں نہیں سوچا گیا ۔موجودہ صورتحال سے ایک دن میں باہر نہیں آیا جا سکتا لیکن ہمیں پوری امید ہے کہ ہم آگے بڑھ کر پیشرف کر رہے ہیں اور ہم نے اسے چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے کیونکہ یہ ہمارا ملک ہے ہم نے اورہماری نسلوں نے بھی یہاں رہنا ہے ۔

یہ ملک عزت کے ساتھ رہنے کے قابل ہونا چاہیے ۔ سبز ہلالی پرچم کی دنیا میں عزت ہونی چاہیے سبز پاسپورٹ کی عزت ہونی چاہیے لیکن اس میں وقت لگے گا لیکن ہم مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے اور ایک دن ضرور پاکستان کی تقدیر بدلے گی یہ ملک ایک دن نیا ملک بنے گا ۔ انہوں نے کہا کہ صدر اوبامہ اور دیگر ذمہ داران سے ملاقات میں صرف یہی بات کی کہ ہمیں امداد نہیں چاہیے بلکہ اپنے دروازے پاکستانی مصنوعات کے لئے کھولیں ۔

وزیر تجارت خرم دستگیر کو ٹارگٹ دیا ہوا ہے کہ ایک سال میں ایکسپورٹ کو ڈبل کرانا ہے حالانکہ مجھے پتہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں لیکن کہنے میں کیا حرج ہے کم از کم ڈیرھ گنا تو ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ بہت ضروری ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر ہمارے ساتھ بیٹھے اور تجاویز دے ۔ اسکے لئے بزنس ایڈوائزر ی کونسل کی تشکیل تقریباًہو چکی ہے اس میں ملک بھر سے بزنس کمیونٹی کی نمائندگی ہو گی ان سے چھ ماہ بعد ایک میٹنگ ہو گی جبکہ اسکی ایگزیکٹو کمیٹی بھی بنائی جائے گی انکے ساتھ تین ماہ بعد ایک میٹنگ ہوا کرے گی ۔

اس میٹنگ میں بزنس کمیونٹی کے لوگ اور حکومتی لوگ آمنے سامنے بیٹھیں گے اور مسائل وہیں بھی حل ہوں گے اور پالیسی بنے گی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ میٹنگ ہر ایک ماہ بعد منعقد ہو جائے کرے اور اس سے تیز ترین طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ ملک میں گروتھ کے لئے اور ترقی کے لئے فیصلے ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کرنا ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ توانائی بحران کے خاتمے کے لئے کام کررہے ہیں ۔

یہ سوچتے ہیں کہ اپنے وسائل پیدا کریں پچھلی حکومت کے قر ضے اتاریں ۔آنے والے دنوں میں بجلی بحران کے خاتمے کے لئے اقدامات میں مزید تیزی لائیں گے ۔ گڈانی کا منصوبہ ہے جلد ہی اس پر پیشرفت نظر آئے گی ۔ کراچی میں سول نیوکلیئر پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا ہے اور اور اس پر بھی پیشرفت کر رہے ہیں ۔ دیا میر بھاشا ‘ بھونجی اور داسو پر بھی کام کر رہے ہیں ۔

ہم ہر وہ منصوبہ شروع کر رکے ہیں جس سے بجلی حاصل ہو سکے ۔ نندی پوری چار سو پچیس میگا واٹ کا حامل منصوبہ شروع ہے اسی طرح نیلم جہلم سے دو سالوں میں نو سو ساٹھ میگا حاصل ہو گی اور سکے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ ہیں اگلے تین سالوں میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار کا مرحلہ بھی شروع ہو جائے گا ۔انشا اللہ اپنے دور میں بجلی کے بحران پریقینا قابو پا لیں گے او ریہ وعدہ پورا ہو جائے گا ۔