ہر سال ایک لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا ،عدالتیں آزاد ہیں، اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کرا سکتے، چوہدری برجیس طاہر ،سندھ اور لاہور میں ہائی کورٹس کی طرف سے حکم کی وجہ سے ٹیکس نادہندگان کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ،عدالت کے حکم کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھایا جائیگا ،پلاننگ کمیشن میں منصوبے 45 روز سے زیادہ زیر التوا نہیں رکھے جاتے، پاکستان انجینئرنگ کونسل کے پرائیویٹ فرم کے ذریعے آڈٹ میں کسی بے قاعدگی کی نشاندہی نہیں ہوئی ، سینٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دور ان وفاقی وزراء برجیس طاہر ، زاہد حامد اور عبد القادر بلوچ کا اظہار خیال ، اراکین سینٹ کا بلوچستان میں ناراض بھائیوں سے مذاکرات کا مطالبہ ،طالبان سے امن کیلئے مذاکرات کرنے والی کمیٹیوں کا مائنڈ سیٹ ایک ہے، اقتصادی ترقی کے لئے امن و امان کی صورتحال کی بہتری ناگزیر ہے، امن و امان کی خرابی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آ رہی،افغان حکومت اور امریکہ میں انخلاء کے معاملہ پر تنازعہ ہے، حکومت اس صورتحال پر مشاورت سے فیصلے کرے، سینیٹر حاجی عدیل ، سینیٹر طلحہ محمود ، سینیٹر طاہر مشہدی ، سینیٹر لالہ عبد الرؤف ، سینیٹر سعید الحسن مندو خیل کا خطاب

جمعرات 6 فروری 2014 20:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6 فروری ۔2014ء) سینٹ کوبتایاگیا ہے کہ ہر سال ایک لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا ،عدالتیں آزاد ہیں، اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کرا سکتے، سندھ اور لاہور میں ہائی کورٹس کی طرف سے حکم کی وجہ سے ٹیکس نادہندگان کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ،عدالت کے حکم کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا ،پلاننگ کمیشن میں منصوبے 45 روز سے زیادہ زیر التوا نہیں رکھے جاتے ، پاکستان انجینئرنگ کونسل کے پرائیویٹ فرم کے ذریعے آڈٹ میں کسی بے قاعدگی کی نشاندہی نہیں ہوئی جبکہ اراکین سینٹ نے بلوچستان میں ناراض بھائیوں سے مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان سے امن کیلئے مذاکرات کرنے والی کمیٹیوں کا مائنڈ سیٹ ایک ہے، اقتصادی ترقی کے لئے امن و امان کی صورتحال کی بہتری ناگزیر ہے، امن و امان کی خرابی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آ رہی ،افغان حکومت اور امریکہ میں انخلاء کے معاملہ پر تنازعہ ہے، حکومت اس صورتحال پر مشاورت سے فیصلے کرے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینٹ میں وقفہ سوالات کے دور ان وفاقی وزیر چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ ایف بی آر ٹیکسوں کا ہدف 16 فیصد حاصل کر سکی ہے، گزشتہ حکومت نے اتنے ہی عرصے میں 8 فیصد کا ٹارگٹ حاصل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ بے شمار لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں، حکومت نے تھرڈ پارٹی کے ذریعے ایسے افراد کی نشاندہی کر لی ہے اس سلسلے میں 61 ہزار لوگوں کو نوٹس جاری کئے ہیں اس سال ایک لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے اس طرح ہر سال ایک لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالتیں آزاد ہیں، ہم اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کرا سکتے، سندھ اور لاہور میں ہائی کورٹس کی طرف سے حکم کی وجہ سے ٹیکس نادہندگان کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے، عدالت کے حکم کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔ وفاقی وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ سی ایف وائی کا پہلا سہ ماہی ہدف 509 ارب روپے مقرر تھا جو ہدف کا 10 فیصد ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 31 دسمبر 2013ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں کام کرنے والے افراد کی کل تعداد 1323 ہے، سٹیٹ بینک میں بھرتی کوٹہ کے مطابق ہوئی ہے لیکن ترقی کوٹہ کے مطابق نہیں ہوتی اس میں دیگر امور کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران سیلز ٹیکس کی شرح 16 فیصد سے 17 فیصد کی حد تک رہی جبکہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی عام شرح 15 فیصد رہی ہے۔

وفاقی وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر نے بتایا کہ پاکستان کے کل غیر ملکی قرضے 47 ہزار 962 ملین ڈالر ہیں اور 8.1 بلین ڈالر کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر موجود ہیں۔ وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ پلاننگ کمیشن کسی بھی منصوبے پر 45 روز میں کارروائی کرتا ہے، اس سے زیادہ کسی منصوبے کو زیر التواء نہیں رکھا جاتا، بڑے منصوبوں کو ایکنک میں بھجوا دیا جاتا ہے۔

وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی طرف سے بتایا کہ پلاننگ کمیشن میں ترقیاتی منصوبوں خا جائزہ لیا جاتا ہے، پلاننگ کمیشن میں اس وقت کوئی چیف اکانومسٹ نہیں ہے البتہ اس کے لئے اہل لوگ موجود ہیں جو چیف اکانومسٹ کی عدم میں موجودگی میں کام کر رہے ہیں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد نے کہا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے پرائیویٹ فرم کے ذریعے آڈٹ میں کسی بے قاعدگی کی نشاندہی نہیں ہوئی۔

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد نے کہا کہ وزارت کے ذیلی اداروں کا آڈٹ اب سرکاری طور پر کیا جائیگا، پی ای سی ایکٹ 1976ء کی دفعہ 24 کی شق 3 کے مطابق پی ای سی کے حسابات کا آڈٹ 30ل جون 2013ء تک پرائیویٹ چارٹرڈ فرم کے ذریعے ہوا جس میں کسی بے قاعدگی کی نشاندہی نہیں ہوئی۔ اجلاس کے دور ان سینیٹر میاں رضا ربانی کی طرف سے دو روز قبل پیش کردہ تحریک ”ایوان ملک میں حالیہ دہشت گرد سرگرمیوں کے خصوصی حوالے سے سیاسی اور امن و امان کی صورتحال کو زیر بحث لائے“ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں طالبان نہیں اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹی میں حکومت نہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ مذاکرات میں کتنی سنجیدگی ہے اور دونوں طرف سے محض اہتمام حجت کیا جا رہا ہے، دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں صورتحال دن بدن بگڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نجکاری کے معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے، آج کل ادارے خریدنے والے یہاں منڈلا رہے ہیں، پبلک سیکٹر کو اونے پونے داموں بیچنے کی بجائے گڈ گورننس سے حالات بہتر بنائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اور امریکہ میں انخلاء کے معاملہ پر تنازعہ ہے، حکومت اس صورتحال پر مشاورت سے فیصلے کرے، تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قومی فیصلے کئے جائیں، افغانستان کے حوالے سے اب تک جنرل ضیاء کی پالیسی چل رہی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ امن کے لئے مذاکرات کرنے والی کمیٹیوں کا مائنڈ سیٹ ایک ہے، عمران خان کو جب طالبان نے نامزد کیا تو انہوں نے انکار کر کے مذاکرات کو کمزور کر دیا حالانہ وہ دس سال سے باتیں کر رہے تھے کہ میں یہ مسئلہ حل کرا دوں گا، مذاکرات کرنے والی دونوں کمیٹیوں میں سے ایک کمیٹی میں طالبان ہیں اور دوسری میں پروطالبان ہیں، فوج کے جوانوں اور عوام نے دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دیں، فوج نے جب آپریشن شروع کیا تو مذاکرات شروع کر دیئے گئے جس کے ذریعے طالبان دو ماہ کا وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیا قانوناً کسی کالعدم تنظیم سے مذاکرات کئے جا سکتے ہیں؟ حکومت اپنی رٹ قائم کرے اور عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر مذاکرات نہیں کئے جا سکتے، میڈیا انتہائی اہم ایشو کو ٹاک شو کی نذر نہ کرے، امن کے لئے مذاکرات کا آپشن ضرور استعمال کیا جائے، بلوچستان میں ناراض بھائیوں سے بھی مذاکرات کئے جائیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ اقتصادی ترقی کے لئے امن و امان کی صورتحال کی بہتری ناگزیر ہے، امن و امان کی خرابی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آ رہی، سرمایہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر لالہ عبدالرؤف نے کہا کہ ملک کی معیشت اور اقتصادیات کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، معیشت کا پہیہ چلے گا تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، امن و امان کے لئے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی کمزوریوں کو دور اور ماضی کی پالیسیوں کو تبدیل کیا جائے۔