سندھ اسمبلی ، اسکارپ ٹیوب ویلز کے منصوبے بارے حکومت پر واجب الادا قرضے کا معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے اٹھایا جائے گا،منظور وسان

منگل 4 فروری 2014 20:08

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4 فروری ۔2014ء) سندھ اسمبلی میں منگل کو اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اسکارپ ٹیوب ویلز کے منصوبے کے حوالے سے سندھ حکومت پر واجب الادا قرضے کا معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے اٹھایا جائے گا جبکہ وزیر اینٹی کرپشن اور جیل خانہ جات منظور حسین وسان نے ایوان میں یہ بھی اعلان کیا کہ بھل صفائی کے نام پر کرپشن کرنے والوں کو سزا دی جائے گی۔

اس ضمن میں 2002 سے انکوائری کی جارہی ہے۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں محکمہ آبپاشی سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے بتایا کہ سندھ میں سیم اور تھور کے خاتمے کے لئے اسکارپ ٹیوب ویلز کا منصوبہ 1966-67میں وفاقی حکومت نے شروع کیا تھا اور اس منصوبے پر واپڈا نے عمل درآمد کرنا تھا۔

(جاری ہے)

منصوبے کی تخمینی لاگت 100ارب روپے تھی، جس میں سے 64ارب روپے خرچ نہیں ہوئے تھے۔ لیکن 100ارب روپے اور اس پر سود بطور قرضہ اقساط میں سندھ حکومت سے اب بھی وصول کیا جاتا ہے۔ سندھ اس پر ہمیشہ احتجاج کرتا رہا ہے اب یہ مسئلہ وفاقی حکومت کے سامنے اٹھایا جائے، جتنی رقم خرچ نہیں کی گئی، وہ وفاقی حکومت سے وصول کی جائے یا قرضہ ختم کرایا جائے۔ وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو نے اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ یہ معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے اٹھایا جائے گا۔

پاکستان مسلم لیگ (فنکنشنل) کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے ایک ضمنی سوال پر کہا کہ محکمہ آبپاشی میں سب سے زیادہ کرپشن ہوتی ہے۔ بھل صفائی کے نام پر بجٹ ہڑپ کرلیا جاتا ہے لیکن بھل صفائی نہیں ہوتی۔ صوبائی وزیر اینٹی کرپشن منظور حسین وسان نے کہا کہ محکمہ اینٹی کرپشن اس حوالے سے 2002 سے انکوائری کررہا ہے۔ کرپشن میں ملوث افراد کو بے نقاب کیا جائے گا اور انہیں سزا بھی دی جائے گی۔

اقلیتی رکن کھٹو مل جیون نے ایک ضمنی سوال میں کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے تھر میں زمین خرید کی اور پھر وہاں ڈیمز بنائے تاکہ وہ اپنی زمینوں کو سیراب کرسکے۔ اس معاملے کی انکوائری کرائی جائے۔ وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو نے اعلان کیا کہ اس معاملے کی انکوائری کرائی جائے گی کیونکہ یہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہے کہ صرف اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے سرکاری فنڈز استعمال کیے جائیں۔

سید سردار احمد نے ایوان کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی کہ دادو میں دراوت ڈیم کی تعمیر پر مقامی لوگ احتجاج کررہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ڈیم سے پانی تقسیم کرنے کا پلان تبدیل کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سکندر میندھرو نے ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ مقامی لوگوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔ مسلم لیگ (فنکنشنل) کی خاتون رکن مہتاب اکبر راشدی کے ضمنی سوال پر ڈاکٹر سکندر میندھرو نے بتایا کہ 2010 کے سیلاب میں محکمہ آبپاشی کے جن افسروں کے خلاف انکوائری ہورہی تھی اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا لیکن میں ذمہ داری کا تعین ہونے پر کسی سے کوئی رعایت نہیں کریں گے۔

جس کا جتنا جرم ہوگا اسے سزا ملے گی۔ انکوائری مکمل نہ ہونے کی وجہ سے افسران مختلف عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ دریں اثناء وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے مختلف سوالوں کے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ سندھ میں 23 نئے چھوٹے ڈیمز تعمیر کرنے کی تجویز ہے۔ پی ایس ڈی پی کے تحت ان منصوبوں کے پی سی 1 منظوری کے لئے وفاقی حکومت کو ارسال کردئیے گئے ہیں۔ ان میں سے 12 چھوٹے ڈیمز نگر پارکر میں تعمیر کئے جائیں گے۔

تین ڈیمز ضلع ملیر، تین ضلع ٹھٹھہ، دو ضلع دادو اور ٹین چھوٹے ڈیمز ضلع جامشورو میں تعمیر کئے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ اسمال ڈیمز آرگنائزیشن سندھ نے کوہستان (کیرتھر کے پہاڑوں) اور نگر پارکر (کارونجھر کے پہاڑوں) کے علاقے میں چھوٹے ڈیمز تعمیر کرنے کی اسکیم شروع کی تھی۔ اس ضمن میں 101 سائٹس کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان میں 23 ری چارج/ اسٹوریج ڈیمز مکمل کئے جا چکے ہیں۔

17، ری چارجز ڈیمز پر کام جاری ہے۔ جبکہ 23 ڈیمز کے پی سی ون منظوری کے لئے وفاقی حکومت کو ارسال کی جاچکی ہیں۔ حکومت سندھ کے سالانہ ترقیاتی پروگرامز (اے ڈی پی) 2013-14 کے تحت تین مزید چھوٹے ڈیمز تعمیر کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2010 کے سیلاب کے بعد کھینجر جھیل، منچھر جھیل اور حمل جھیل کے کناروں کو اونچا کرنے اور مضبوط بنانے کا کام کیا جارہا ہے۔ نئے ڈیزائن کے مطابق تینوں جھیلوں کے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافہ ہوگا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ 2010 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ٹوری بند کی دوبارہ تعمیر اور اسے مضبوط بنانے کے لئے 35 کروڑ 49 لاکھ روپے خرچ کئے گئے ہیں اور اس وقت یہ بند مضبوط ہے۔

متعلقہ عنوان :