حکومت کی نجکاری پالیسی کا پتہ نہیں آرڈیننس ہی بائبل کا درجہ رکھتا ہے، سیکرٹری نجکاری کمیشن امجد علی خان ،نجکاری کمیشن شفافیت کو یقینی بنا رہا ہے ، نجکاری کمیشن کی کارکردگی کو بین الاقوامی سطح پر سراہا جا رہا ہے ،فروخت ہونے والے اداروں میں متاثرہ ملازمین کو ایک یا دو سال کے متعین عرصہ تک نجکاری کمیشن حقوق کا تحفظ فراہم کر سکتا ہے، سیکرٹری نجکاری کمیشن، حکومت کے نشاندہی کردہ 31 اداروں کی نجکاری کیلئے نجکاری کمیشن کے پاس صلاحیت و اہلیت نہیں ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کوبریفنگ ،پی ٹی سی ایل کے 300 ملین روپے ابھی تک وصول نہیں ہوئے ، محمود خان اچکزئی ،یہ بادشاہوں کا معاملہ عرب شہزادے کو ناراض نہیں کر سکتے ،خورشید شاہ کا جواب

منگل 4 فروری 2014 19:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4 فروری ۔2014ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سیکرٹری نجکاری کمیشن نے حکومتی نجکاری پالیسی بارے لاعلمی کا اظہار اور نجکاری کمیشن کے پاس 31 اداروں کی نجکاری کی صلاحیت نہ ہونے کا اعتراف کر تے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی پالیسی کا پتہ نہیں ، آرڈیننس ہی ہمارے لئے بائبل کا درجہ رکھتا ہے،قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید خورشید شاہ کی صدارت میں منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا اجلاس میں کمیٹی اراکین اور نجکاری کمیشن کے سیکرٹری امجد علی خان و دیگر حکام شریک ہوئے ۔

اجلاس میں کمیٹی اراکین کو حکومت کی نجکاری عمل بارے بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری نجکاری کمیشن امجد علی خان نے بتایا کہ حکومت نے 68 اداروں کو نجکاری کی فہرست میں شامل کیا ہے جن میں سے 31 اداروں کی ترجیحی بنیادوں پر نجکاری کی جائیگی جن میں پی آئی اے بھی شامل ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ نجکاری کیلئے حکومت فنانشل ایڈوائزر مقرر کریگی جس کی رائے پر نجکاری کمیشن کا بورڈ سفارشات کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کو بھجوائے گا جو حتمی منظوری دیگی۔

سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ فنانشل ایڈوائزر کے ذمہ فروخت سے قبل ادارے کی ری سٹرکچرنگ کی ذمہ داری بھی ہو گی ۔ کمیٹی رکن نوید قمر نے کہا کہ فنانسل ایڈوائزر کو نجکاری ڈیل میں شیئر ہولڈر بنایا گیا ہے تو وہ ادارے کی ری سٹرکچرنگ یا اسے منافع بخش بنانے کو کیوں ترجیح دیگا؟۔ سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ فنانشل ایڈوائزر کی رائے کو نجکاری کمیشن بورڈ مسترد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

کمیٹی رکن عذرا فضل نے کہا کہ پی آئی اے جیسا ادارہ جو خسارے کا شکار ہے اس میں مزید حکومتی سرمایہ کاری کیسے نتیجہ خیز ہو سکتی ہے اور کیا یہ قومی سرمائے کا ضیاع نہیں ہو گا جس پر سیکرٹری نجکاری نے جواب دیا کہ اس بارے میں سول ایوی ا یشن واضح جواب دے سکتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ نجکاری کیلئے متعین کیا گیا فنانشل ایڈوائزر ادارے کی مینجمنٹ کو تبدیل کرنے کا اختیار ہو گا تاکہ اسے بہتر حالت میں لا کر فروخت کے قابل بنایا جا سکے۔

اراکین کمیٹی کے استفسار پر نجکاری کمیشن کے سیکرٹری سے آگاہ کیا کہ گزشتہ پانچ سال سے کوئی نجکاری نہیں ہوئی ۔2009 میں نجکاری کی بجائے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پالیسی اختیار کی گئی جس کے تحت پی ٹی سی ایل کی نجکاری ہوئی تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ نجکاری کمیشن میں اب تکنیکی ماہرین کی تعداد 22 سے کم ہو کر 6 رہ گئی ہے۔ سیکرٹری نجکاری کمیشن نے برملا اعتراف کیا کہ حکومت کے نشاندہی کردہ 31 اداروں کی نجکاری کیلئے نجکاری کمیشن کے پاس صلاحیت و اہلیت نہیں۔

نجکاری کی صلاحیت بڑھانے کیلئے غیر ملکی اداروں سے ماہرین کی خدمات لی جائیں گی ۔ سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ فروخت ہونے والے اداروں میں متاثرہ ملازمین کو ایک یا دو سال کے متعین عرصہ تک نجکاری کمیشن حقوق کا تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ نجکاری کمیشن کے قانون مشیر فروخت کئے گئے اداروں کے ملازمین کے حقوق کا عدالتوں میں تحفظ کرتے ہیں ۔

کئی مقدمات جیت جاتے ہیں کچھ ہار جاتے ہیں ۔ آڈیٹر جنرل پاکستان رانا بلند اختر نے کہا کہ ٹرسٹ انوسٹمنٹ بنک میں نجکاری کمیشن نے اس مرحلے پر سرمایہ کاری کی جب بنک انتہائی گہری کیٹگری ”ٹرپل بی“ میں تھا جبکہ قانون کے مطابق حرف اے گریڈ کیٹگری بنک میں ہی سرکاری طور پر سرمایہ کاری ہو سکتی ہے ۔ سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کہا کہ نجکاری کمیشن شفافیت کو یقینی بنا رہا ہے اور نجکاری کمیشن کی کارکردگی کو بین الاقوامی سطح پر سراہا جا رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ فروخت ہونے والے اداروں کو مانیٹرنگ کی جاتی ہے ۔ کمیٹی اراکین کے نجکاری پالیسی بارے استفسار پر سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کہا کہ نجکاری آرڈیننس ہی ہمارے لئے بائبل کا درجہ رکھتا ہے اس کے تناظر میں نجکاری کا عمل ہوتا ہے۔ محمود اچکزئی نے کہا کہ پی ٹی سی ایل کے 300 ملین روپے ابھی تک وصول نہیں ہوئے جس پر چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے کہا کہ یہ بادشاہوں کا معاملہ عرب شہزادے کو ناراض نہیں کر سکتے خورشید شاہ نے کہا کہ نجکاری کے حوالے سے جو بھی حکومتی پالیسی ہے اس میں شفافیت کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔

متعلقہ عنوان :