امریکی اخبار”واشنگٹن پوسٹ“ کا پاکستان میں تیزی سے جنگلات کے خاتمے پر اپنی تشویش کا اظہار

منگل 4 فروری 2014 17:52

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 4 فروری 2014ء) امریکی اخبار”واشنگٹن پوسٹ“ نے پاکستان میں تیزی سے جنگلات کے خاتمے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ درختوں کی کٹائی میں اضافے سے پاکستان زیادہ تباہ کن سیلاب اورمٹی کے تودوں جیسے واقعات کا شکار ہو رہاہے، بیکٹیریا ملے پانی اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں شدت اختیار کرتی جارہی ہیں۔

موسم سرما سے پہلے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سالانہ 67500ایکڑ جنگلات سے محروم ہو رہا ہے۔ قدرتی آفات اور تباہی سے بچانے کیلئے پاکستان کو1.5ٹریلین سے2ٹریلین درخت لگانے کی ضرورت ہے۔حکام کے مطابق پاکستان سالانہ دس کروڑ پودے لگاتا ہے مگر اس میں سے نصف دو سال کی مدت میں ختم ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

دسمبر میں پاکستان نے عالمی بینک سے3.8ملین ڈالر کی گرانٹ جنگلات کی کمی کی تحقیق کیلئے حاصل کی۔

عالمی بینک کے اندازے کے مطابق پاکستان کی سرزمین صرف 2.1فی صد جنگلات سے ڈھکی ہے اس کے مقابلے میں بھارت 23فی صد جب کہ امریکا33فی صد جنگلات رکھتا ہے۔ پاکستانی رہنما سیٹلائٹ اعداد و شمار کے حوالے سے کہتے ہیں کہ 5.1 فیصد سطح کوجنگلات نے گھیر رکھا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی 20فی صد آبادی بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہے ،غریب اور دیہی آبادی موسم سرما میں لکڑی پر انحصار کرتی ہے تاہم شدید توانائی کی قلت نے اہل ثروت کو لکڑی پر گزارہ کرنے پر مجبور کردیا پاکستان کا شمار پہلے ہی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جنگلات کی کمی ہے تاہم موجودہ صورت حال نے خطرناک رجحان کو جنم دیا ہے جس سے پاکستان تیزی سے جنگلات کھورہا ہے۔

ماحولیات اور سرکاری حکام بھی اس خدشے کاشکار ہوچکے ہیں۔ دس گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گیس کے بحران نے عوام کو لکڑی کی طرف مائل کیا۔اسلام آباد دارالحکومتوں میں سبزہ زار کی وجہ سے ایک پہچان رکھتا تھا،مگر کئی علاقے اب اس پہچان سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کافی عرصے سے ٹمبر مافیا سے برسرپیکار ہے، پولیس حکام اور محکمہ جنگلات کے کچھ عناصر کک بیکس وصول کرکے اس منافع بخش صنعت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔پاکستان میں جنگلات کی کمی نے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش پیدا کی ہے۔جنگلات کی کٹائی سے پیدا شدہ مسائل کو سرکاری حکام تسلیم کرتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :