ملک میں امن مذاکرات کی کامیابی سے ہی ممکن ہے‘سید منور حسن،آپریشن سے نفرتیں بڑھتی ،عوام اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں ، حکومت بنگلہ دیش کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کو عالمی سطح پر اٹھائے ‘اجتماع ارکان سے خطاب

پیر 3 فروری 2014 21:08

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔3 فروری ۔2014ء) جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منورحسن نے کہا ہے کہ مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں ، فوجی آپریشن اور قوت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوتے ،پاکستان واحد ملک ہے جس نے ملٹری آپریشن کا سب سے زیادہ تجربہ کیا ہے اور اس کے نتائج بھی بھگتے ہیں، فوجی آپریشن سے نفرتیں بڑھتی ہیں ، عوام اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں ، فوجی آپریشن کی مخالفت اصل میں فوج کی حمایت ہی ہے ، حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ 1973میں بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کو سامنے لائے اور بنگلہ دیش کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کو عالمی سطح پر اٹھائے ۔

حسینہ واجد حکومت بھارتی ایماء پر بنگلہ دیش میں اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں پر مظالم ڈھارہی ہے، جماعت اسلامی ایک عالمی تحریک ہے جس کی تاریخ آزمائشوں سے بھری ہوئی ہے ،ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نورحق میں جماعت اسلامی کراچی کے اجتماع ارکان سے خصوصی خطاب اور ارکان جماعت کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا ، اجتماع ارکان سے ڈائریکٹر اسلامک ریسرچ اکیڈمی لاہور حافظ محمد ادریس‘ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن اور قیم حلقہ عبدالوہاب نے بھی خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر نائب امرا کراچی مظفر ہاشمی، نصراللہ شجیع، مسلم پرویز، نائب قیمین عبدالرشید بیگ اور راشد قریشی بھی موجود تھے۔ سید منور حسن نے کہا کہ سیکولر لابی مذاکرات کے بجائے ملٹری آپریشن کے حق میں راہموار کررہی ہے ، ملٹری آپریشن کے حق میں بات کرنے والے اصلاًشریعت کے خلاف بات کرتے ہیں سیکولر قوتوں کا ملک کے اندر اپنا ایجنڈا ہے ، پاکستان میں بدقسمتی سے ملٹری آپریشن کے کئی تجربات کیے گئے اور ان کے نتائج بھی بھگتے اسی وجہ سے ملک کا ایک بازو ہم سے الگ ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک بات اور سمجھنی چاہیئے کہ طاقت سے شریعت نافذ ہوسکتی ہے اور نہ ہی جیٹ طیاروں کی بمباری سے امن قائم ہوسکتا ہے ، ڈنڈے کی مخالفت ضرور کی جانی چاہیئے مگر شریعت کی مخالفت ہرگز نہیں کی جانی چاہیئے ،حالات کو صحیح رخ پر رکھنے کیلئے شریعت کے حق میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیئے ، سید منور حسن نے کہا کہ بنگلہ دیش کی سنگین صورتحال اور جماعت اسلامی کے خلاف حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت کی ظالمانہ کاروائیوں اور پھانسی کی سزاؤں کے تسلسل کے حوالے سے بنگلہ دیش حکومت پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

حکومت پاکستان کی تو یہ ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ 1973 میں ہونے والے معاہدے کو سامنے لائے جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت بھارت نے بھی یہ طے کیا تھا کہ تمام جنگی جرائم کے حوالے سے مستقبل میں کوئی مقدمات نہیں بنائے جائیں گے اور اس معاہدے کی رو سے پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا تھا۔ اس معاہدے پر بھارت کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا ۔

اب شیخ حسینہ واجد کی حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ اس معاہدے کے خلاف ورزی ہے امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمن نظامی سمیت 14افراد کو پھانسی کی سزادی گئی ہے اور ایک پرانے مقدمے کو دوبارہ زندہ کیا گیا ہے ،سید منورحسن نے کہا کہ طلبہ یونین پر پابندی تو ایک ڈکٹیٹر نے لگائی تھی مگر بعد میں آنے اور جانے والی سیاسی حکومتوں نے بھی طلبہ یونین کے انتخابات کو اپنے حق میں بہتر نہیں سمجھا ، انہوں نے کہا کہ آج معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ مزدور اور بالخصوص کسان ہے ان کے مسائل کے حل اور دکھوں کا مداو کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہیئے ، انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ پیدا ہونے والی مفاہمت خوش آئندہے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مقامی قیادت فیصلہ سازی کے عمل میں موثر کردار ادا کرسکتی ہے انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک دینی ، دعوتی اور علمی تحریک ہے ، اس کی تاریخ آزمائشوں سے بھری ہوئی ہے ، ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ علم اور کتاب سے ہمارا رابطہ کمزور نہ ہونے پائے ، مطالعے کو وسعت دی جائے کتاب سے تعلق کو گہرا اور مستحکم کیا جائے اور مطالعے کا شوق اور ذوق پیدا کیا جائے ۔