درخواستیں زائد المیعاد ہیں ، سپریم کورٹ نے 31 جولائی کے فیصلے کیخلاف مشرف کی نظرثانی کی درخواست خارج کردی

جمعرات 30 جنوری 2014 14:31

درخواستیں زائد المیعاد ہیں ، سپریم کورٹ نے 31 جولائی کے فیصلے کیخلاف ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 30جنوری 2014ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے31 جولائی 2009 کے فیصلے کیخلاف سابق صدر پرویز مشرف کی نظرثانی کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہاہے کہ نظرثانی کی درخواستیں زائد المیعاد ہیں،مقررہ وقت پر دائر نہیں کی گئیں۔ جمعرات کو چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سر براہی میں سپریم کورٹ نے 14 رکنی لارجر بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست کی سماعت کی بینچ جسٹس ناصر الملک ، جسٹس جواد ایس خواجہ ، جسٹس انور ظہیر جمالی ، جسٹس خلجی عارف حسین ، جسٹس میاں ثاقب نثار ، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ، جسٹس سرمد جلال عثمانی ، جسٹس امیر ہانی مسلم ، جسٹس اعجاز احمد چوہدری ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید ، جسٹس اقبال حمید الرحمن اور جسٹس مشیر عالم پرمشتمل تھے سماعت شروع ہوئی تو سابق صدر کے وکیل شریف الدین پیر زادہ نے 31 جولائی کا فیصلہ دینے والے ججز پر جانبداری کے الزام سے اپنے دلائل کاآغاز کرتے ہوئے کہاکہ پرویز مشرف اور افتخار چودھری کے تنازعہ کا ثبوت آرمی ہاوٴس میں ہونے والی ملاقات بھی ہے سابق چیف جسٹس کو آرمی ہاوٴس طلب کیا گیا تھا انہوں نے عدالت میں اخبارات کے تراشے بھی پیش کیے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ اخبارکی خبروں کو بیچ میں نہ لائیں، اس ملاقات سے تو ثابت ہوتا ہے کہ آرمی چیف جانبدار تھے، 34 صفحات کی پٹیشن میں وہ پیرا دکھا دیں جس میں چیف جسٹس کے جانبدار ہونے کاالزام ہو۔

(جاری ہے)

شریف الدین پیر زادہ نے دالائل میں کہا کہ قائد اعظم نے بھی وفاقی آئینی عدالت بنانے کی تجویز دی تھی اور میثاق جمہوریت میں بھی ایک وفاقی آئینی عدالت کی بات کی گئی ہے جس پر جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیاکہ کیا آپ ملک میں ایک الگ آئینی عدالت کی تجویز دے رہے ہیں، تو شریف الدین پیرزادہ نے ہاں میں جواب دیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے پوچھا کہ اس تجویز کا نظر ثانی کیس سے کیا تعلق ہے؟۔

شریف الدین پیر زادہ نے کہا کہ ان کا نظر ثانی کیس سے کوئی تعلق نہیں، شریف الدین پیر زادہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ تاریخ میں آئین سے ہٹ کر کئی دفعہ کام کیے گئے، عدلیہ نے اجازت بھی دی۔ شریف الدین پیر زادہ کی جانب سے دلائل مکمل کئے جانے کے بعد ابراہیم ستی نے ایک مرتبہ پھر دلائل دینے شروع کئے جس میں انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف بند ہیں ہم تو پرویزمشرف کا ٹرائل ہی نہیں چاہتے، لارجر بینچ میرے موکل کیلئے کچھ کرے۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ وہ ہسپتال میں ہیں؟ ابراہیم ستی نے کہا کہ خدا کیلئے ایسا فیصلہ دیں جس سے آئین کے آرٹیکل 10 کے تقاضے پورے ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جس طرح ماورائے آئین اقدامات کو تسلیم کیا گیا، ابھی کر لیں۔ جسٹس ثاقب نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس میں ظفر علی شاہ اور نصرت بھٹو کیس کا حوالہ دینا چاہتے ہیں تا کہ اب بھی کوئی ماورائے آئین اقدام کر لیں۔

شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ وہ ماورائے آئین اقدام کی اجازت نہیں مانگ رہے۔جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ جب وزیراعظم نے ملکی صورتحال پر صدر کو خط لکھا تو سال میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اب یہ حالات ہیں کہ 2013 میں چھ ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایمرجنسی اب لگنی چاہئے۔ جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف اب معافی چاہتے ہیں۔

عدالتی استفسار پر شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ دیگر ممالک میں بھی آرٹیکل چھ کا اطلاق ہوتا ہے۔1973 میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے تمام عدلیہ سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی لگائی تاہم ایک جج نے مخالفت کی جسے نظرانداز کیا گیا۔اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران چار ہزار افراد کو گرفتار کروایا۔اندرا گاندھی نے ایک روز کیلئے اپنی بھی گرفتاری دی۔

جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ پھرآپ یہ بھی کہہ دیں کہ یہ بھارتی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا۔شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کو کئی بار تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے کہاکہ آرٹیکل 10 اے آ چکا ہے، عدالت سے انصاف چاہیے درخواست اس وجہ سے واپس نہیں لی کہ ایسا لگتا استغاثہ نے درخواست واپس لے لی۔

انہوں نے کہاکہ چاہتے ہیں ہماری درخواست منظور کی جائے اور نظرثانی درخواست کا فیصلہ ضرور کیا جائے جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یا تو ہم آپ کی درخواست منظور کر سکتے ہیں یا مسترد کرسکتے ہیں۔ابراہیم ستی اور شریف الدین پیرزادہ کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت ایک گھنٹے تک ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ وقفے کے دوران جائزہ لیں گے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل رشید رضوی کے دلائل سننے ہیں یا نہیں،یہ بھی مشاورت کریں گے کہ کیا فریقین کو نوٹس جاری کرنے ہیں یا نہیں۔

وقفے کے بعد عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ نظرثانی کی درخواستیں زائد المیعاد ہیں،مقررہ وقت پر دائر نہیں کی گئی ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ پرویز مشرف نے 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست مقررہ مدت میں دائر نہیں کی اس کے علاوہ جو دلائل دیئے گئے وہ بھی اس سے مطابقت نہیں رکھتے اس لئے درخواست کی سماعت نہیں کی جاسکتی۔عدالت نے کہاکہ درخواست گذار یہ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے 31 جولائی کے فیصلے میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا رویہ تعصب پر مبنی تھا۔

متعلقہ عنوان :