اسامہ بن لادن جیسے لوگ مرتے نہیں، دلوں میں بستے ہیں، سید منور حسن

منگل 28 جنوری 2014 19:14

اسامہ بن لادن جیسے لوگ مرتے نہیں، دلوں میں بستے ہیں، سید منور حسن

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28جنوری۔2014ء) جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن جیسے لوگ مرتے نہیں، دلوں میں بستے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کا مسئلہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں، مسلم لیگ (ن) حکومت نے مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔اسلام آباد میں افغان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منور حسن کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن جیسے لوگ لوگوں کی آرزوؤں کو عنوان دیتے ہیں۔

امریکا خوفزدہ ہے کہ وہ افغانستان سے نکلا تو اسامہ پھر زندہ ہو جائے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کا کہنا تھا کہ افغانستان مغرب کی سائنس کا قبرستان بن گیا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا مسئلہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں ہے۔ منور حسن نے کہا کہ اسامہ بن لادن جیسے لوگ مرتے نہیں بلکہ دلوں میں بستے ہیں۔

(جاری ہے)

امریکہ اس خوف سے واپس نہیں جائے گا کہ اسامہ کہیں دوبارہ زندہ نہ ہو جائے۔

امریکیوں کا افغانستان سے واپس جانے کا ارادہ نظر نہیں آ رہا۔ منور حسن نے کہا کہ بارہ سال تک فوجیں افغانستان میں ڈیرے ڈال کر بیٹھی رہیں لیکن افغانیوں کو زیر نہیں کیا جا سکا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چھ سات ماہ اذیت اور کرب میں گزرے ہیں۔ مذاکرات کے معاملے پر پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لیا جائے ۔منور حسن نے کہا کہ دنیا کے تمام بڑے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کئے گئے۔

بلوچستان میں 5واں اور کراچی میں دوسرا آپریشن کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کرنے والے خود ٹارگٹ بن رہے ہیں۔ زیر زمین مذاکرات قوم کے اعتماد کو مجروح کرنے والی بات ہے۔ منور حسن نے کہا کہ (ن) لیگ کو مذاکرات کا مینڈیٹ سیاسی جماعتوں نے دیا۔ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی طاقت صرف (ن) لیگ کے پاس تھی۔ (ن) لیگ کی حکومت نے ہی مذاکرات کوسبوتاژ کیا۔

انہوں نے کہا کہ گیارہ مئی کا عوامی مینڈیٹ اتنا بھاری ہے کہ (ن) لیگ سے اٹھایا نہیں جا رہا۔ سیمنار سے خطاب میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ طالبان سے مذاکرات ہوں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہمیں جھونکا گیا۔ آج بھی موقف وہی ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ سے نکلا جائے ۔ مذاکرات کی بجائے جنگ کا آپشن انتہائی خطرناک ہے۔ مذاکرات کا حل نکالنا ہوگا ورنہ بڑا نقصان ہوگا۔

جنگ سے نکلنا ہوگا ورنہ ملک تباہ ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلئ علاقوں میں آپریشن کرنا بہت مشکل ہے۔ سیمنیار سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ امریکا جانے کیلئے افغانستان نہیں آٰیا۔ پاکستان، ایران اور ایشیاء کو سوچنا ہو گا۔ معاملہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کا نہیں بلکہ وسائل اور اقتصادیات پر بالادستی قائم کرنے کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں حکومت ملکی مفادات کے لئے کیا کر رہی ہے لیکن ملک کی مجموعی صورت حال کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اپنی ضرورتوں کا تعین کرنا ہوگا۔ جذبات کے بجائے عقل کی بنیاد پر فیصلے کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد نیٹو کی اہمیت ختم ہو گئی لیکن اسے صرف مسلم امہ کو ہدف بنانے کیلئے برقرار رکھا گیا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ نے دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ مولانا نے کہا کہ فوجی آپریشن مسئلے کا حل نہیں۔

متعلقہ عنوان :