سپریم کورٹ کاوفاق اور صوبے کو مالاکنڈ سے لاپتہ 35 افراد کے ریکارڈ کا جائزہ لیکر 24 گھنٹوں میں پیش کرنے کا حکم ، لاپتہ افراد سے متعلق نئے آرڈیننس کا جائزہ لینگے ، عدالت عظمیٰ ، ریاست ایک شہری کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو ملک کا تحفظ کیسے کریگی؟جسٹس جوادایس خواجہ ،بلوچستان سے 25 افراد کی لاشیں ملنا دو ایگزیکٹوز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ،ہمیں ان کیمرہ بریفنگ کی ضرورت نہیں ، لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے ، تمام ادارے ضابطہ فوجداری اور دیگر قوانین پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں ،ریمارکس ، لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں پیشرفت ہوئی ہے ،حکومت نے کمیشن تشکیل دیا ہے ،ایک ماہ میں رپورٹ دیگا ،اٹارنی جنرل ،عدالت عظمیٰ نے لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ آنے تک وقت دینے کی استدعا مسترد کر دی

پیر 27 جنوری 2014 20:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27 جنوری ۔2014ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاق اور صوبے کو مالاکنڈ سے لاپتہ 35 افراد کے ریکارڈ کا جائزہ لیکر 24 گھنٹوں میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد سے متعلق نئے آرڈیننس کا جائزہ لینگے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے حقوق کا تحفظ صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی ، ریاست ایک شہری کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو ملک کا تحفظ کیسے کریگی؟بلوچستان سے 25 افراد کی لاشیں ملنا دو ایگزیکٹوز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ،ہمیں ان کیمرہ بریفنگ کی ضرورت نہیں ، لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے ، تمام ادارے ضابطہ فوجداری اور دیگر قوانین پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔

پیر کو ملاکنڈ کے حراستی مرکز سے 35 لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ لاپتہ افراد سے متعلق نئے آرڈیننس کا جائزہ لیں گے صوبائی حکومت نے ان لاپتہ افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا تھا اگر ریاست ایک شہری کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو ملک کا تحفظ کیسے کریگی؟بلوچستان سے 25 افراد کی لاشیں ملنا دو ایگزیکٹوز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

(جاری ہے)

ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا لطیف یوسفزئی نے موقف اختیار کیا کہ عدالت کو معلوم ہے کہ ان افراد کو فوجی لے کر گئے تھے صوبائی حکومت کا کام تھا کہ وہ وزارت دفاع سے رابطہ کرتی۔اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں پیشرفت ہوئی ہے۔ حکومت نے کمیشن تشکیل دیا ہے جو ایک ماہ میں رپورٹ دیگاصوبہ خیبر پختون خوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ان افراد سے متعلق صدارتی آرڈیننس آگیا ہے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اعلیٰ فوجی افسران سے رابطہ بھی کیا جا رہا ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے پوچھا کہ قانون سازی حکومت کا کام ہے جبکہ صوبائی حکومت نے اس ضمن میں کیا اقدامات کیے ہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ صوبائی حکومت کو یہ معاملہ وفاقی حکومت یا فوج کے سامنے اٹھانا چاہیے تھا تاہم انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ وہ اس ضمن میں عدالت کو ان کیمرہ بریفنگ دینے کو تیار ہیں جس پر بیچ کے سربراہ نے کہاکہ اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ تمام ادارے ضابطہ فوجداری اور دیگر قوانین پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔

اْنھوں نے کہا کہ اگر قانون کی پاسداری کی جاتی تو ملک میں ایسے حالات پیدا نہ ہوتے۔ اْنھوں نے کہا کہ آج بھی یہ افسوس ناک خبر پڑھنے کو ملی ہے کہ بلوچستان کے علاقے پنجگور سے 25 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ عدالت کا تحمل اب اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ ان افراد کے معاملے پر سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سردار رضا خان کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا ہے جو اس معاملے کا جائزہ لے گا۔

اْنھوں نے کہا کہ کمیشن ایک ماہ کے اندر اندر ان افراد سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کریگاعدالت نے کمیشن کی رپورٹ آنے تک وقت دینے کی استدعا مسترد کر دی ، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا لطیف یوسف زئی کا کہنا تھا کہ عدالت کے علم میں ہے کہ 35 افراد کو فوج اٹھا کرلے گئی تھی اور عدالتی احکامات کے مطابق لاپتا افراد سے متعلق آرڈیننس آ گیا ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا سے استفسار کیا کہ قانون سازی وفاقی حکومت کا کام ہے،تحفظ پاکستان آرڈیننس کو قانون کے مطابق پرکھا جائے گا بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبائی حکومت کو ریکارڈ کا جائزہ لے کر 24گھنٹے میں عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت29جنوری تک ملتوی کردی۔