ذکاء اشرف بحالی کیس ، ایس آر او کے ذریعے کرکٹ بورڈ کے انتظامات نہیں چلائے جا سکتے، سپریم کورٹ ، ذکاء اشرف کی بحالی مان لی جائے تو پھر عبوری کمیٹی کی کیا قانونی حیثیت ہوگی ، عاصمہ جہانگیر ، ہمیں آج بھی ذکا ء اشرف کیخلاف قانونی کار روائی کا اختیار ہے ، حکومت قانونی طور پر ہٹا نے کا اختیار ہے ، دلائل ، حکومت یا پی سی بی کے پاس چیئرمین کی برطرفی کا اختیار ہے تو پھر وہ عدالت سے کیوں رجوع کررہے ہیں ؟ عدالت عظمیٰ ،عدالت عبوری نظام کو کس طرح چھیڑ سکتی ہے جائزہ لیں گے ، کرکٹ صرف کھیل نہیں ، ڈپلومیسی کا بھی ایک طریقہ ہے ، آئندہ سماعت پر بتایا جائے حکومت نے پی سی بی کی عبوری کمیٹی کیلئے کس قانون کے تحت ایس آر او جاری کیے؟ جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس

پیر 27 جنوری 2014 20:28

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27 جنوری ۔2014ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیئرمین پی سی بی ذکاء اشرف کی بحالی کیخلاف حکومتی د رخواست کی سماعت کے دور ان کہا ہے کہ ایس آر او کے ذریعے کرکٹ بورڈ کے انتظامات نہیں چلائے جا سکتے ،عدالت عبوری نظام کو کس طرح چھیڑ سکتی ہے اس کا جائزہ لیں گے ، کرکٹ صرف کھیل نہیں ، ڈپلومیسی کا بھی ایک طریقہ ہے۔

آئندہ سماعت پر بتایا جائے حکومت نے پی سی بی کی عبوری کمیٹی کیلئے کس قانون کے تحت ایس آر او جاری کیے؟ پیر کو سپریم کورٹ کے جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے چیئر مین پی سی بی ذکاء اشرف کی بحالی کے خلاف حکومتی درخواست پر سماعت کی۔ وزارت بین الصوبائی رابطہ کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے ہی فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا عبوری انتظامی کمیٹی بھی ختم کر دی اور ذکاء اشرف کو بھی بحال کر دیا۔

(جاری ہے)

اسلام آباد ہائیکورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ دیتے ہوئے زمینی حقائق کو مد نظر نہیں رکھا۔ عبوری کمیٹی 90 روز کیلئے بنائی گئی تھی جس کو 10 جنوری کو دوبارہ توسیع دی گئی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عدالت عبوری نظام کو کس طرح چھیڑ سکتی ہے اس کا جائزہ لیں گے۔ انٹرا کورٹ اپیل کے زیر التواء رہتے ہوئے کیا کسی ایس آر او کے ذریعے ذکاء اشرف کی تقرری ختم کی جا سکتی تھی۔

انہوں نے کہاکہ ایس آر او کے ذریعے کرکٹ بورڈ کے معاملات نہیں چلائے جا سکتے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حکومت نے 10 جنوری کو 90 دن کیلئے پی سی بی کا کنٹرول عبوری کمیٹی کو سونپ دیا تھا۔ انٹرا کورٹ اپیل میں ذکاء اشرف کی بحالی کا فیصلہ 15 جنوری کو جاری کیا گیا اگر ذکاء اشرف کی بحالی مان لی جائے تو پھر عبوری کمیٹی کی کیا قانونی حیثیت ہوگی؟۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر ذکاء اشرف کا تقرر درست تھا تو پھر انٹرا کورٹ اپیل کے فیصلے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ ہمیں آج بھی ذکا ء اشرف کیخلاف قانونی کار روائی کا اختیار ہے۔ ذکا اشرف کو حکومت اب بھی قانونی طور پر ہٹا سکتی ہے جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کے پاس یہ اختیار ہے تو عدالت میں کیوں اپیل دائر کی اگر قانون کے مطابق آپ کے پاس اختیار ہے تو اسے استعمال کریں آپ حکومت سے ہدایات لے لیں کہ اپیل کی پیروی کرنی ہے یا اختیار استعمال کرنا ہے۔

وقفے کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کرکٹ صرف کھیل نہیں بلکہ ڈپلومیسی کا بھی ایک طریقہ ہے۔ آئندہ سماعت پر بتایا جائے کہ حکومت نے پی سی بی کی عبوری کمیٹی کیلئے کس قانون کے تحت ایس آر او جاری کیے۔ عاصمہ جہانگیر نے موقف اختیار کیا کہ سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ نے حکومت سے ہدایات لینی ہیں اس لیے وقت دیا جائے۔ عدالتی آبزرویشن سے سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ کو آگاہ کر دیا ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر معاملہ سمجھ میں آگیا ہے تو ہدایات کیلئے وقت کیوں لے رہے ہیں؟ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عبوری کمیٹی کا ایس آر او اب بھی قابل عمل ہے جس کے تحت ذکاء اشرف غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ ہمارے ذہین میں کوئی ایس بات نہیں کہ ہم آپ کو سننا نہیں چاہتے دونوں ایس آر او جاری کرنیوالی مجاز اتھارٹیز الگ الگ تھیں دیکھنا ہوگا کہ کیا دونوں ایس آر اوز قانون کے تحت جاری ہوئے یا نہیں؟ جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ پی سی بی کے پاس اگرچیئرمین تعینات کرنے کا اختیار ہے تو وہ عملد رآمد کرے اور چیئرمین پی سی بی کو ہٹا دے۔

اگر کوئی پی سی بی کے فیصلے سے متاثر ہوا تو وہ خود عدالت آ جائیگا۔وزارت بین الصوبائی رابطہ کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے موقف اختیار کیا کہ یہ عدالت کا کام نہیں کہ چیئرمین پی سی بی کو تعینات کیا جائے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عبوری کمیٹیاں صرف خلاپرکرنے کیلئے بنائی جاتی ہیں، ذکا اشرف کی تعیناتی پی سی بی کے قانون تحت کی گئی تھی ان کی بحالی سے عبوری کمیٹیاں خود بخود ختم ہو گئیں اگر کوئی ہائی کورٹ کے فیصلے سے متاثر ہوا ہے تو اسے عدالت آنا چاہیے کیس کی مزید سماعت 31 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔