سرفراز شاہ کے رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں قتل سے معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ،سندھ ہائی کورٹ

جمعہ 24 جنوری 2014 16:44

سرفراز شاہ کے رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں قتل سے معاشرے میں عدم تحفظ ..

کراچی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24جنوری 2014ء) سندھ ہائی کورٹ نے رینجرز اہلکار کے ہاتھوں قتل ہونے والے سرفراز شاہ قتل کے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ رینجرز کے اس عمل سے بلاشبہ معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس ہوا ہے ۔سفاک طریقے سے مقتول کو مارنے سے معاشرے میں سنسنی پیداہوئی ۔مقتول کی موت اس کو وقت پراسپتال نہ پہنچانے کے باعث ہوئی ۔سندھ ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے مطابق مقتول سرفراز شاہ کی موت اسے وقت پر اسپتال نہ پہنچانے کے باعث ہوئی ۔

اس واقعہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قانون شکنی کی اعلیٰ مثال قائم ہوئی ہے ۔عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام شہریوں کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ ان کو ماورائے عدالت قتل کرنا ۔قانون کے مطابق رینجرز کو ملزم پر فائرنگ کرنے کا اختیار نہیں جو حملہ آور بھی نہیں ۔

(جاری ہے)

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ رینجرز کے اس عمل سے بلاشبہ معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس ہوا ہے ۔

ایسے نہتے لڑکے پر گولیاں چلائی گئیں جو اپنی جان کی پناہ مانگ رہا تھا ۔رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں سرفرازکا قتل انسداد دہشت گردی کے قوانین پر پورا اترتا ہے ۔گولیاں چلنے کے بعد بھی کوئی رینجرز اہلکار بھی سرفراز شاہ کی مدد کو نہیں آیا ۔عدالت نے اپنے فیصلے میں شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقتول کے بھاگنے اور حملہ کرنے کا بظاہر کوئی ارادہ نظر نہیں آتا ۔

لگتا ہے کہ رینجرز اہلکاروں کا مقصد ہی اسے قتل کرنا تھا ۔سفاک طریقے سے مقتول کو مارنے سے معاشرے میں سنسنی پیداہوئی ۔واضح رہے کہ رینجرز اہلکاروں نے 6جون 2011کو بے نظیر پارک کلفٹن میں سرفراز شاہ نامی نوجوان کوفائرنگ کرکے قتل کردیا تھا ۔20اگست 2011کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج بشیر احمد کھوسو نے ملزم رینجرز اہلکار شاہد ظفر کو سزائے موت ،بہاوٴالرحمن ،طارق ،منٹھار علی ،لیاقت علی اور افسر خان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی ۔

ملزمان کی جانب سے سزاوٴں کے خلاف اپیل پر سندھ ہائی کورٹ نے 30مئی 2013کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔7ماہ 20دن بعد سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سرفراز شاہ قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے رینجرز اہلکار کو سزائے موت ،بہاوٴ الرحمن ،منٹھار علی ،طارق اور چوکیدار افسر خان کو عمر قید کی سزا جبکہ رینجرز اہلکار کو شواہد نہ ملنے کے باعث بری کردیا تھا ۔

متعلقہ عنوان :