اسرائیلی حکومت سازش کے تحت غرب اردن ، غزہ کی پٹی ، 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں منقسم فلسطینی خاندانوں کے انسانی حقوق پامال کررہی ہے، بت سلیم ،سرائیلی کی عدالتیں بھی منتشر فلسطینی خاندانوں کی مشکلات کم کرنے میں ٹھوس کردارادا نہیں کرسکی ہیں، رپورٹ میں انکشاف

منگل 21 جنوری 2014 13:52

مقبوضہ بیت المقدس(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21 جنوری ۔2014ء) اسرائیل میں صہیونی حکومت کے مظالم کو آشکار کرنیوالی یہودی تنظیم ”بت سلیم“نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ تل ابیب حکومت منظم سازش کے تحت دریائے اردن کے مغربی کنارے،غزہ کی پٹی اور 1948ء کے مقبوضہ علاقوں کے درمیان منقسم فلسطینی خاندانوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال کر رہی ہے۔

اطلاعات کے مطابق صہیونی تنظیم ”بتسلیم“اور دفتر برائے دفاع انفرادی انسانی حقوق کی جانب سے ”تاریکیوں کے پیچھے“کے عنوان سے رپورٹ جاری کی ہے جس میں غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور شمالی فلسطین کے آس پاس عارضی بستیوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے کچھ فاصلے پر آباد فلسطینیوں کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا ہے بلکہ ان کی روز مرہ زندگی کو اجیرن بنانے کیلئے انہیں طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان منتشر فلسطینی خاندانوں کی دکھ بھری داستان انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری کے کردار کیلئے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ منتشر فلسطینی خاندانوں کا یہ حال ہے کہ شوہر غزہ شہر میں ہے اور اہلیہ شہر سے باہرکسی دوسری بستی میں ہے۔ اسی طرح غزہ کے اندر اور باہر جگہ جگہ فلسطینی خاندان کئی کئی حصوں میں منقسم ہیں۔

ایک ہی خاندان کا ایک بچہ مغربی کنارے میں بند، والد شمالی فلسطین کے 1948ء کے علاقوں میں محبوس اور کوئی دوسرا بھائی غزہ کی پٹی سے ملحقہ کسی بستی میں پریشان ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے درمیان شہریوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسرائیلی فوج مغربی کنارے سے غزہ کی پٹی میں تو محدود پیمانے پر شہریوں کی منتقلی کی اجازت تو دیتی ہے مگرغزہ کے کسی شہری کو مغربی کنارے میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔

غزہ کے شہریوں کی مغربی کنارے میں داخلے کیلئے دی گئی درخواستیں ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی جاتی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی کی عدالتیں بھی منتشر فلسطینی خاندانوں کی مشکلات کم کرنے میں کوئی ٹھوس کردارادا نہیں کرسکی ہیں۔ اگر کوئی فلسطینی اپنے خاندان کے ملاپ کیلئے اسرائیل کی کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا بھی ہے تو عدالتیں فوج اور صہیونی سیکیورٹی اداروں کے موقف کے مطابق فیصلے دیتی ہیں جس کے نتیجے میں فلسطینی خاندانوں میں صہیونی فوج کیساتھ ساتھ اسرائیلی عدلیہ کیخلاف نفرت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :