بطور چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیش 5 ہزار سے زائد طلباء کو پی ایچ کی ڈگری کیلئے دنیا کی مختلف یونیورسٹیز بھیجا،موجودہ وفاقی حکومت کے برسراقتدار آتے ہی سکالر شپس روکنے سے بیرون ملک طلباء بھیک مانگنے پر مجبورہوگئے ہیں،ڈاکٹر عطاء الرحمن

ہفتہ 18 جنوری 2014 15:26

میرپور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18جنوری 2014ء) سابق وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی و آئی ٹی ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ انہوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے پانچ ہزار سے زائد لائق ترین پاکستانی طلباء وطالبات کو Phdکی ڈگری حاصل کرنے کے لیے پوری دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں بھیجا لیکن افسوس کی بات ہے کہ جو نہی موجودہ وفاقی حکومت برسرِ اقتدار آئی انہوں نے ان لائق ترین پاکستانی سٹوڈنٹس کے سکالرشپس روک دیئے۔

جس کی وجہ سے یہ لائق ترین پاکستانی بچے بیرونِ ملک مسجدوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ میرے ضمیر نے گوارہ نہ کیا کہ میں یہاں پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین بن کر بیٹھا رہوں اور یہ بچے ہماری حکومت کے غلط فیصلے کی وجہ سے دربدر ہو کر رہ جائیں ۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ میں نے HECکی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا ۔

ڈاکٹر عطا الرحمن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم بجٹ کا صرف 1.8فیصد ہے۔ جبکہ ملائیشیا کے حکمران ڈاکٹر مہاتیر محمد نے آج سے تیس سال قبل تعلیم کا بجٹ 30فیصد کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج 56اسلامی ممالک میں87فیصد ہائی ٹیک پراڈکٹس ایکسپورٹ ملائیشیا کر رہا ہے اور باقی55اسلامی ممالک مل کر تیرہ فیصد ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔

اس وقت پوری دنیا کا سرمایہ کار بشمول پاکستان ملائیشیا کا رُخ کر رہے ہیں۔پاکستان میں جب مجھے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت دی گئی تو اُس وقت بھارت کی کمپیوٹرز پراڈکٹس ایکسپورٹ ساٹھ ارب ڈالر سالانہ تھی جبکہ پاکستان صرف تیس ہزار ڈالرز کی ایکسپورٹ کر رہا تھا۔ہم ے ہنگامی پالیسی اختیار کی اور یہ ایکسپورٹ تیس ہزار سے بڑھ کر ایک ارب ڈالر ز تک جا پہنچی۔

پاکستان میں اس وقت بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ تمام انڈسٹری ٹیکس فری ہے۔ اور یہ حکم میں نے جاری کروایا تھا۔ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہاکہ بھارت سے ہم تعلیم کی فیلڈ میں چالیس سال پیچھے ہیں۔ پاکستان میں چار سطح پر تعلیم کو بہتر بنانا ہو گا اور یہ درجے پرائمری ، سیکنڈری، ہائیر ایجوکیشن اور ٹیکنیکل ایجوکیشن ہیں۔ہماری سیاسی حکومتوں کی ترجیحات میں تعلیم کا کوئی نمبر نہیں ہے۔

تمام سیاسی جماعتیں بھی اپنے ایجنڈاز کے اندر تعلیم کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دے رہے۔ پوری دنیا سے فیس بک پر کیے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا کہ اگر اُنہیں اب بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن یا تعلیم کی وزارت دے دی جائے تو مناسب فنڈنگ اور اختیارات کے بغیر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔برطانیہ سے کئے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں اور ڈاکٹر عبد القدیر خان جوہری سائنسدان سیاست میں آکر عمران خان کا ساتھ دیتے ہوئے عملی تبدیلی کی کوشش کیوں نہیں کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان کے سب سے بڑے سائنسدان ہیں۔

اور اُن کی فیلڈ اپلائیڈ انجینئرنگ ہے۔اُنہیں سیاست میں ڈالنے کی بجائے اُن کی تعلیم اور مہارت کا فائدہ اُن کی فیلڈ کے مطابق لیا جائے تو پاکستان بے انتہا ترقی کر سکتا ہے۔اسی طرح میں ایک ماہرِ تعلیم ہوں۔ میں نے 1971ء میں کیمبرج یونیورسٹی امریکہ سے Phdکی تھی او ر میری فیلڈ آرگینک کیمسٹری تھی۔میں نے یورپ اور امریکہ میں 110کتابیں اور سات سو سے زائد ریسرچ پیپرز لکھے ہیں جو پوری دنیا میں مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں کے نصاب کا حصہ ہیں۔

مجھ سے بھی اگر قوم فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے تو میری فیلڈ کے مطابق مجھے ذمہ داریاں دی جائیں۔ اگر میں نے الیکشن لڑا بھی تو یقین جانیئے کہ ناکامی کے حوالے سے بھی نیا ریکارڈ قائم کروں گا۔ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا کہ ملائیشیاکے بادشاہ نے اُن کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں ملائیشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی میرے نام سے موسوم کر دی ہے۔ہمارا دین بھی ہمیں علم کا درس دیتا ہے۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ممبر قومی اسمبلی جنرل عبد القادر بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر عطا الرحمن اور ڈاکٹر عبد القدیر خان ہمارے ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ آج اگر ہم ڈاکٹر عطا الرحمن کو کوئی اہم ذمہ داری دیتے ہیں تو موجودہ حکومت کہتی ہے کہ وہ جنرل مشرف کی حکومت کا حصہ تھے۔اور اگر ڈاکٹر عبد القدیر خا ن کو کوئی ذمہ داری دیتے ہیں تو امریکہ کی ناراضگی آڑے آجاتی ہے۔

ہماری طرف سے یہ دونوں بھاڑ میں جائیں ہمارے لیے ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ڈاکٹر عطا الرحمن اہم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آپ سے اپنی خدمات کا کوئی بھی صلہ نہیں مانگتے اور اِن سے بڑا محبِ وطن کوئی بھی نہیں ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی خرم جہانگیر وٹو نے کہا کہ ڈاکٹر عطا الرحمن کی خدمات تعلیم کے حوالے سے کسی تعارف کی محتاج نہیں اور ہم جلد ہی اُن کی خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

مسلم کانفرنس کے رہنما سردار عثمان عتیق نے کہا کہ تعلیم کے بغیر ہماری قوم کا مستقبل بہتر نہیں ہو سکتا اور تعلیم کے حوالہ سے ہائیر ایجوکیشن کی سطح پر ڈاکٹر عطا الرحمن نے کشمیر کی بھی بہت مدد کی ہے۔ہمارے خطے میں نقل مافیا کو کنٹرول کر نے کے لیے مجاہدِ اوّل سردارعبد القیوم خان نے خاتون مجسٹریٹ کو گرفتاری کرنے اور ریسٹی کیٹ Resticateکرنے کے اختیارات بھی دے دیے تھے۔ جس سے صورتحال قابو میں آگئی تھی۔ پروگرام میں پوری دنیا سے لوگوں نے ڈاکٹر عطا الرحمن سے سوالات کئے اور اُن کی خدمات کو سلام پیش کیا۔

متعلقہ عنوان :