طاقت کا استعمال حل نہیں،دہشت گردی کو مذاکرات نے ہی شکست دی ہے،سید منورحسن،پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ،طاقت سے مسائل حل نہیں ہوتے ،بڑی سے بڑی جنگ بھی مذاکرات کی میز پر ہی ہاری یا جیتی گئی ،محمود احمد برکاتی شہیدعلم کا چشمہ اور فیض کا دریا تھے ،طب کے شعبے میں ان کی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی،مقررین، تعزیتی جلسہ عام سے مظفر احمد ہاشمی،مجاہد محمود برکاتی،ڈاکٹر عبد الوہاب، ڈاکٹر عبد الحنان،ڈاکٹر معین الدین عقیل و دیگر کا خطاب

پیر 13 جنوری 2014 22:04

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13 جنوری ۔2014ء) جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منورحسن نے کہا ہے کہ طاقت سے کبھی مسائل حل نہیں کیے جا سکتے ،دہشت گردی کو مذاکرات نے ہی شکست دی ہے۔ملک میں قیامِ امن کے لیے ناگزیر ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے باہر آئے۔حکیم محمود احمد برکاتی نے پوری زندگی انسانیت کی خدمت کی ہے،علم اور دہشت گردی ایک دوسری کی ضد ہیں،جہاں علم ہوگا وہاں دہشت گردی کو فروغ نہیں مل سکتی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے علامہ حکیم ڈاکٹر سید محمود احمد برکاتی شہید کی یاد میں جمعیت الفلاح صدر میں منعقدہ تعزیتی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تعزیتی جلسے سے جمعیت الفلاح کے صدر مظفر احمد ہاشمی ،نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد زبیری،،سیکریٹری حکیم مجاہد محمود برکاتی،جناح یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبد الوہاب،ہمدرد یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبد الحنان،معروف ادیب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل،دانشور راشد شیخ،شکیل خان،پروفیسرمنورشیخ، اور دیگر نے خطاب کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن،سیکریٹری عبد الوہاب ،سابق امیر محمد حسین محنتی اور دیگر بھی موجود تھے۔تعزیتی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے علامہ حکیم ڈاکٹر سید محمود احمد برکاتی شہید کی حیات و خدمات پر تفصلی روشنی ڈالتے ہوئے شہید کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ محمود احمد برکاتی شہیدعلم کا چشمہ اور فیض کا دریا تھے، انہوں نے طب کے شعبے میں جو خدمات انجام دی ہیں انھیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔

وہ ایک وسیع القلب انسان تھے۔ دہشت گردوں نے انہیں شہید کر کے علم کے ایک روشن چراغ کو گل کیا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود اب تک ان کے قاتل گرفتار نہیں کیے جا سکے۔سید منورحسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سید محمود احمد برکاتی نے پوری زندگی انسانیت کی خدمت کی اور 90سال کی عمر میں شہید کر دیئے گئے،ان کا قتل ایک فرد نہیں ایک روایت اور عہد کا قتل ہے،جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ،دہشت گرد کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں،جب کہ دوسری جانب یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ مذاکرات کیے جائیں یا نہیں،حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ مذاکرات ہی سے معاملات حل کیے جاتے ہیں،طاقت سے مسائل حل نہیں ہوتے ،بڑی سے بڑی جنگ بھی مذاکرات کی میز پر ہی ہاری یا جیتی گئی ہے۔

کسی زمانے میں نیلسن منڈیلا اور یاسر عرفات بھی دہشت گرد تھے مگر ان سے مذاکرات کیے گئے،خود برطانوی حکومت نے آئرش آرمی سے مذاکرات کیے اور آج وہاں امن ہے۔سید منورحسن نے کہا کہ پاکستان میں فوجی آپریشن سے ہمیں جو تجربہ ہوا ہے وہ کم ہی کسی قوم کو ہواہوگا۔ ہم نے بنگلہ دیش میں طاقت کے استعمال کا نتیجہ دیکھ لیا اس کے باوجود آج پاکستان میں پانچواں فوجی آپریشن جاری ہے ،سوات اور فاٹا میں آپریشن کیا گیا،اگر سوات میں آپریشن کامیاب ہوگیا ہے تو وہاں سے فوج واپس کیوں نہیں بلائی جاتی۔انہوں نے اس کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے روگ کو ختم کرنے کے اسباب تلاش کر نے ہوں گے اور دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ سے باہر آنا ہوگا۔