شام کا ترکی کو داعش مخالف دراندازی پر انتباہ

ترک حکومت کی اعلان کردہ پالیسی اقوام متحدہ کے رکن ملک کیخلاف حقیقی جارحیت کی عکاس ہے،شامی وزارت خارجہ

اتوار 5 جنوری 2014 12:25

دمشق(اُردو پوائنٹ اخبار تاز ترین۔5 اکتوبر 2014ء) شام نے ترکی کو داعش کے جنگجووٴں کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی حدود میں دراندازی پر انتباہ کیا ہے کہ اس نے اگر مداخلت کی تو اس کو جارحیت سمجھا جائے گا۔شامی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ترک حکومت کی اعلان کردہ پالیسی اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک کے خلاف حقیقی جارحیت کی عکاس ہے۔ ترکی شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کا شدید ناقد ہے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ داعش کو شکست دینے کے ساتھ اسد رجیم کا خاتمہ بھی ان کی اولین ترجیح ہے۔شامی وزارت خارجہ کی جانب سے یہ انتباہ ترک وزیراعظم احمد داوٴد اوغلو کے اس بیان کے بعد سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کا ملک داعش کے جنگجووٴں کو شام کے سرحدی شہر عین العرب (کوبانی) پر قبضے سے روکنے کے لیے جو بن پڑا،کرے گا۔

(جاری ہے)

احمد داوٴداوغلو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم کوبانی کا سقوط نہیں چاہتے ہیں۔ہم اس کو رونما ہونے سے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔انھوں نے کہا کہ ہمارے علاوہ کوئی بھی اور ملک شام اور عراق میں رونما ہونے والے واقعات پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔اس سے پہلے ترک پارلیمان نے حکومت کو شام اور عراق میں فوجی مداخلت کی اجازت دی تھی اور اس نے غیرملکی فورسز کو دولت اسلامی (داعش) کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی بھی منظوری دی تھی۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کے جنگی طیارے کوبانی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں تباہ کن فضائی حملے کررہے ہیں لیکن وہ داعش کی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔وہ اب کوبانی کی دہلیز پر ہیں۔وہ جنوب اور جنوب مشرق کی سمت سے شہر کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں۔البتہ اب ان کی آزادانہ اور جتھوں کی شکل میں نقل وحرکت محدود ہوچکی ہے۔