ملا فضل اللہ سخت گیر موقف والی شخصیت ہیں،ممکن ہے ا ن کیساتھ مذاکرات سودمند ثابت ہوں،بعض شدت پسند گروہ مذاکرات کے حامی ہیں‘رانا تنویر حسین ،طالبان سے مذاکرات کے لیے سازگارماحول کاانتظارکریں گے ،چند ماہ لگ سکتے ہیں،حکومت اور فوج کا طالبان سے مذاکرات بارے موقف ایک ہے ، دونوں میں کوئی اختلاف نہیں،امریکہ بھی مذکرات کا حامی ہے لیکن حکیم اللہ محسود پرحملے سے قبل اسے انتظارکرنا چاہیے تھا، پاکستانی احتجاج کے نتیجے میں اوباما انتظامیہ کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا،وفاقی وزیردفاعی پیداواررانا تنویرحسین کا برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو

بدھ 13 نومبر 2013 22:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13نومبر۔2013ء) وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے کہاہے کہ ہم مذاکرات کو موقع دینا چاہتے ہیں ہم طالبان کے انکار کے باوجود مذاکرات کی ہی بات کریں گے،ملا فضل اللہ سخت گیر موقف والی شخصیت ہیں لیکن ہوسکتا ہے اس مرتبہ ا ن کے ساتھ مذاکرات سودمند ثابت ہوں،بعض شدت پسند گروہ حکومت سے مذاکرات کے حامی ہیں،حکومت اور فوج کا طالبان سے مذاکرات بارے موقف ایک ہی ہے ، دونوں مکمل طور پر ایک ہی سوچ رکھتے ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں،امریکہ مذکرات کا حامی ہے جیسے وہ دوحہ مذاکرات کی حمایت میں تھا لیکن حکیم اللہ محسود حملے سے قبل امریکاکو انتظارکرنا چاہیے تھا،حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر پاکستانی احتجاج کے نتیجے میں امریکا کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا،بدھ کو برطانوی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویومیں وفاقی وزیردفاعی پیداواررانا تنویر حسین نے کہاکہ طالبان اپنے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر ابھی غصے میں ہیں لہٰذا جب تک ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا مذاکرات ممکن نہیں ہیں،ان کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے آئندہ دو یا تین ماہ میں مذاکرات کے لیے دوبارہ کوشش کی جاسکتی ہے،فوجی کارروائی آخری راستہ ہوگا کیونکہ ہم مذاکرات کو موقع دینا چاہتے ہیں ہم طالبان کے انکار کے باوجود مذاکرات کی ہی بات کریں گے،ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ ایک سخت گیر موقف والی شخصیت ہیں لیکن ہوسکتا ہے اس مرتبہ ان کے ساتھ مذاکرات سودمند ثابت ہوں،ان کا کہنا تھا کہ بعض شدت پسند گروہ حکومت سے مذاکرات کے حامی ہیں اور معاشرے کے مرکزی دھارے میں آنا چاہتے ہیں،مذاکرات کے بارے میں فوجی قیادت کے موقف پر رانا تنویر کا کہنا تھا کہ فوجی اور سیاسی قیادت کا ایک موقف ہے کہ دونوں مکمل طور پر ایک ہی سوچ رکھتے ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں،امریکہ کے کردار کے بارے میں انہوں نے کہاکہ وہ مذاکرات کا حامی ہے جیسے کہ وہ دوحہ مذاکرات کے حق میں تھا لیکن حکیم اللہ کی ہلاکت کے بارے میں ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ امریکہ انتظار کرسکتا تھا، انہوں نے کہا کہ ابھی امریکیوں کی جانب سے اس ہلاکت پر پاکستانی احتجاج کے نتیجے میں کوئی ردعمل سرکاری سطح پر نہیں موصول ہوا ۔