پاکستان میں 330 ڈرون حملوں میں 400 عام شہری مارے گئے، رپورٹ اقوام متحدہ کو پیش کر دی گئی ، امریکہ نے پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں کے اعداد وشمار جاری نہیں کیے ، رپورٹ میں انکشاف ، ڈرون آپریشن میں سی آئی اے کے ملوث ہونے کی وجہ سے معاملے کی شفافیت میں شدید مشکلات حائل ہیں ، امریکہ شہریوں کی ہلاکت کے اعدادو شمار جاری کر ے ، اقوام متحدہ کا مطالبہ ، رپورٹ میں جائزہ لیا گیا ہے کہیں ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی اموات غیر متناسب تو نہیں ، کس حد تک قانونی ہیں ، بین ایمر سن

ہفتہ 19 اکتوبر 2013 14:14

نیویارک (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 19اکتوبر 2013ء) اقوام متحدہ کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 330 ڈرون حملوں میں بائیس سو افراد مارے گئے جن میں 400 عام شہری شامل تھے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تفتیش کار بین ایمرسن نے ڈرون حملوں کے متعلق اپنی رپورٹ جنرل اسمبلی کو پیش کردی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے فراہم کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 2004 سے اب تک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 330 ڈرون حملے کیے گئے جن میں تقریبا 2200 افراد ہلاک اور 600 شدید زخمی ہوئے۔

ہلاک ہونے والوں میں 400 عام شہری بھی شامل تھے جبکہ مزید 200 افراد ایسے بھی تھے جو ممکنہ طور پر جنگجو نہیں تھے۔رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں رسائی تک مشکلات اور دیگر وجوہات کے باعث شہریوں کی ہلاکت کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں امریکی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ امریکہ نے پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں کے اعداد وشمار جاری نہیں کیے۔

ڈرون آپریشن میں سی آئی اے کے ملوث ہونے کی وجہ سے معاملے کی شفافیت میں شدید مشکلات حائل ہیں۔اقوام متحدہ کے تفتیش کار نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ ڈرون حملوں میں شہریوں کی ہلاکت کے اعداد وشمار جاری کرے۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن کے مطابق رپورٹ میں جائزہ لیا گیا کہ کہیں ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی اموات غیر متناسب تو نہیں اور کس حد تک قانونی ہیں۔

تحقیق کے دوران بین ایمرسن نے ڈرون حملوں کے لیے ذمہ دار امریکی افسروں سمیت اْن ملکوں کے اہلکاروں سے بھی بات چیت کی ہے جن کی سرزمین پر امریکہ ڈرون طیاروں کے ذریعے دہشت گردوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔بین ایمرسن کے بقول پاکستان اور یمن میں ہونے والے ڈرون حملوں کی نگرانی سی آئی اے کرتی ہے۔بین ایمرسن کے خیال میں ان ڈرون حملوں سے ہونے والے جانی نقصان کے اعداد و شمار کو منظرِعام پر لانے سے امریکی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

انہوں نے امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ سمیت ڈرون طیارے استعمال کرنے والے تمام ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ عام شہریوں کے جانی نقصان کی معلومات دینا اور اْس کی قانونی وضاحت کرنا اپنا فرض سمجھیں۔اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ اگر ڈرون طیارے انتہائی محتاط حکمتِ عملی کے تحت استعمال کیے جائیں تو دوسری ہر قسم کی فوجی کارروائی کی نسبت ڈرون حملے کم جانی نقصان کرتے ہیں۔بین ایمرسن کے بقول حملہ کرنے والے اور جہاں حملہ ہو رہا ہو دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہونا ضروری ہے۔