دورہ پاکستان میں شدت سے محسوس ہوا کہ 2014ء تک پاکستان اور بھارت نے تنازعہ کشمیر پر مفاہمت نہ کی تو مقبوضہ میں مسلح شورش کی نئی اور خطرناک لہر شروع ہوگی ‘ امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد کشمیر واحد میدان جنگ بچتا ہے اور طالبان دوسری شدت پسند قوتیں یہاں آ سکتی ہیں‘پاکستان میں اندرونی انتشار کی وجہ سے فی الوقت مسئلہ کشمیر پاکستانی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست نہیں رہا‘بھارتی سربراہوں سے ملاقاتوں کے باعث سید علی گیلانی مجھ پر تنقید کرتے ہیں‘جہاں سے بھی سفارتی مدد ملی حاصل کریں گے ‘ حریت وفد جلد چین کا دورہ کرے گا‘کشمیری بھارتی حکومت سے مایوس ہیں‘مسلح شدت پسندی کا یہ دائرہ بھارت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، کل جماعتی حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق کا برطانوی نشریاتی ادارے ’ کو انٹرویو

جمعرات 3 جنوری 2013 13:36

سرینگر/لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی این پی۔ 3جنوری2013ء) کل جماعتی حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ دورہ پاکستان کے دوران محسوس ہوا ہے کہ 2014ء تک پاکستان اور بھارت نے تنازعہ کشمیر پر مفاہمت نہ کی تو مقبوضہ میں مسلح شورش کی نئی اور خطرناک لہر شروع ہو سکتی ہے‘پاکستان میں اندرونی انتشار کی وجہ سے فی الوقت مسئلہ کشمیر پاکستانی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست نہیں‘بھارتی سربراہوں سے ملاقاتوں کے باعث سید علی گیلانی مجھ پر تنقید کرتے ہیں‘جہاں سے بھی سفارتی مدد ملی حاصل کریں گے ‘ حریت وفد جلد چین کا دورہ کرے گا‘کشمیری بھارتی حکومت سے مایوس ہیں‘مسلح شدت پسندی کا یہ دائرہ بھارت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے‘ امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد کشمیر واحد میدان جنگ بچتا ہے اور طالبان دوسری شدت پسند قوتیں یہاں آ سکتی ہیں۔

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی “ کو دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ میں نے اپنے دورہ پاکستانمیں یہ بات شدت سے محسوس کی ہے کہ اگر 2014 سے قبل بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے تنازعے پر مفاہمت نہ ہوئی تو بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں مسلح شورش کی نئی اور خطرناک لہر چل پڑے گی۔میرواعظ عمر فاروق علیحدگی پسنداتحاد حریت کانفرنس کے اْس دھڑے کے سربراہ ہیں جس کی اکائیاں حکومت ہند اور حکومت پاکستان کے ساتھ دوطرفہ طور پر بات چیت کی حامی ہیں۔

میرواعظ کا کہنا ہے کہ مسلح شدت پسندی کا یہ دائرہ بھارت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ وہ بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور موجودہ وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔بات چیت کی اس پالیسی کی وجہ سے انہیں حریت کانفرنس کے حریف دھڑے کے رہنما سید علی گیلانی کی تنقید کا بھی سامنا ہے۔ لیکن میرواعظ پاکستان سے لوٹنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتِ ہند مسئلہ کشمیر پر ’دیکھو اور انتظار کرو‘ یعنی تنازعے کو موٴخر کے حالات کا مشاہدہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے امریکہ افغانستان میں امن کا کوئی فریم ورک طے کرکے ہی نکلے گا۔ لیکن افغانستان کے بعد اس خطے میں کشمیر واحد میدان جنگ بچتا ہے۔ یہاں اگر لوگوں میں غصہ قائم رہا اور فوج موجود رہی تو طالبان اور دوسری شدت پسند قوتیں یہاں آسکتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ان کے اپنے سیاست دان، یہاں کا چیف منسٹر فوجی اختیارات میں محض ترمیم کا مطالبہ کر رہا ہے۔

یہ ایک چھوٹا قدم ہے۔ اس معاملہ پر بھی نئی دلّی ہٹ دھرم ہے۔ لیکن خطے میں حالات بدل رہے ہیں اور اگر اگلے ڈیڑھ سال تک کچھ نہیں ہوا تو کشمیر میں مسلح شورش کی ایسی لہر چلے گی جس میں ہم جیسے لوگوں کی بات بھی بے وزن ہوگی۔یہ پوچھنے پر کہ پاکستانی دورے کے دوران لشکرِ طیبہ یا حزب المجاہدین کی قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں سے وہ کیا اخذ کرتے ہیں، میرواعظ نے کہا کہ عسکری قیادت بھی حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں اگر حکومت ہند مسئلہ کشمیر کے بارے میں روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ دے تو وہ لوگ (عسکری قیادت) بھی لچک کا مظاہرہ کرے گی۔ میرواعظ نے انکشاف کیا کہ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتیں چینی سفارت کاروں کے ساتھ رابطہ میں ہیں اور ’عنقریب حریت کانفرنس کا وفد چین جائیگا۔‘ میرواعظ کا کہنا ہے: ’جہاں سے بھی سفارتی مدد ملے گی ہم حاصل کریں گے۔

کشمیر میں مسلح تحریک کے نئے امکانات کے بارے میں میرواعظ عمر کا کہنا ہے کہ یہاں کے نوجوانوں کو ہراساں کرکے پولیس اور فوج انہیں تشدد کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ’ہم تو سمجھتے ہیں کہ آج کے حالات میں مسلح مزاحمت اب عالمی سطح پر قبول نہیں کی جارہی ہے۔ لیکن جب ہمارے نوجوانوں کے لیے جمہوری راستے مسدود کیے جائیں تو وہ کہاں جائیں گے؟۔ انہوں نے کہاکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ آج کے حالات میں مسلح مزاحمت اب عالمی سطح پر قبول نہیں کی جارہی ہے۔

لیکن جب ہمارے نوجوانوں کے لیے جمہوری راستے مسدود کیے جائیں تو وہ کہاں جائیں گے۔ ایک سوال کہ اگر طالبان نے کشمیر کا رْخ کیا تو بات چیت اور امن عمل کی حامی حریت کانفرنس ان کی حمایت کرے گی؟ اس کے جواب میں میرواعظ نے کہا کہ اگر انتہاپسند قوتیں غالب آگئیں تو امن عمل اور اس میں یقین رکھنے والے حلقے غیرمتعلق ہوجائیں گے۔ پھر یہ سوال نہیں ہوگا کہ ہم ان کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں، وہ تو حکومت ہند کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

میرواعظ نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں اندرونی انتشار کی وجہ سے فی الوقت مسئلہ کشمیر پاکستانی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست نہیں ہے، لیکن وہ اس مسئلہ سے مکمل طور پر دامن نہیں جھاڑ سکتے۔کشمیر میں حکومت سازی کے لیے ہونیوالے انتخابات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ الیکشن اور حکومت سازی کے باوجود بھارت کشمیر کی متنازع حیثیت کو زائل نہیں کر سکا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں کوئی تحریک لوگ چلاتے ہیں اور لوگوں کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں لوگ تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس دوران بجلی پانی اور سڑک کے لیے اگر وہ کہیں ووٹ ڈالتے ہیں ہم ان کو مجرم نہیں سمجھیں گے۔میرواعظ نے کہا کہ بھارت کشمیر میں ہونے والے انتخابات کو عالمی سطح پر حق خود ارادیت کے متبادل کے طور استعمال کرتا رہا ہے ’لیکن یہ تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔