آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی ، پاک فوج نے داخلی خطرات کو ملکی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قرار دیدیا،سبز کتاب میں نیم روایتی جنگ کا نام سے ایک نئے باب کا اضافہ ،دستاویز کو عوام تک پہنچانے کا فیصلہ،کتاب دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جسے متعلقہ فوجی کمانڈروں میں تقسیم کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ، مناسب وقت آنے پر اسے فوج کی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا جائے گی،سینئرفوجی افسرکی بات چیت، اندرونی و بیرونی خطرات کا ادراک کرنا پاکستان کی فوجی پالیسی میں بنیادی تبدیلی ہے،دفاعی مبصرین

بدھ 2 جنوری 2013 23:24

اسلام آباد/لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔2جنوری۔ 2013ء) پاکستان کی بری فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے گیارہ سال بعد اپنی آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی کرتے ہوئے ملک کو لاحق اندرونی خطرات کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے دیا ۔ بدھ کوطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق فوج کی جانب سے شائع کردہ نئے فوجی نظریے یا آرمی ڈاکٹرائین میں ملک کی مغربی سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں جاری گوریلا کارروائیوں اور بعض تنظیموں کی جانب سے اداروں اور شہریوں پر بم حملوں کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے یہ ڈاکٹرائین فوج اپنی جنگی تیاریوں اور استعدادِ کار کے جائزے اور اسے درست سمت میں رکھنے کے لیے شائع کرتی ہے۔

اس بار اس سبز کتاب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے جسے سب کنونشنل وار فیئریا نیم روایتی جنگ کا نام دیا گیااس جنگ کے کرداروں میں نام لیے بغیر بعض تنظیموں اور عناصر کا ذکر کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اس ذیل میں مغربی سرحد کے اس پار سے ہونے والی کارروائیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔دفاعی مبصرین مغربی سرحد اور اس کے قریب پیدا ہونے والے ان اندرونی و بیرونی خطرات کا ادراک کرنے کو پاکستان کی فوجی پالیسی میں بنیادی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس ڈاکٹرائین کے شائع ہونے سے پہلے تک بھارت ہی پاکستان کا دشمن نمبر ایک رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے تمام اثاثے صرف اسی دشمن کے لیے بنتے اور جمع ہوتے رہے ہیں یہ پہلی بار ہے کہ پاکستانی فوج نے باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ اب ملک کو اصل خطرہ اندرونی ہے جس کا ارتکاز مغربی سرحد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہے۔

طلعت مسعود نے کہا کہ فوجی نظریے یا ڈاکٹرن میں اس تبدیلی سے پتا چلتا ہے کہ فوج اب اپنی آپریشنل تیاریوں اور منصوبہ بندی میں زیادہ اہمیت اس نیم روایتی جنگ کو دے رہی ہے جس کا ہدف ممکنہ طور پر تحریکِ طالبان پاکستان اور افغان سرحد کے اس پار ان کے اتحادی ہیں۔اس فوجی نظریے کی تیاری میں کردار ادا کرنے والے ایک سینئر فوجی افسر نے بتایا کہ نیم روایتی جنگ کے نام سے ایک نیا باب شامل کرنے کا مقصد فوج کو اس نئے خطرے سے لڑنے کے لیے تیار کرنا اور اس کے لیے ضروری عوامی اور سیاسی حمایت کا حصول ہے۔

سبز رنگ کی یہ کتاب دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جسے متعلقہ فوجی کمانڈروں میں تقسیم کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ فوجی ذرائع کے مطابق اس دستاویز کو عوام تک پہنچانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور مناسب وقت آنے پر اسے فوج کی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا جائے گا۔ اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ بعض تنظیمیں اور عناصر پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کی غرض سے قبائلی اور شہری علاقوں میں دہشت گردی کارروائیاں کر رہی ہیں۔

یہ حملے انتہائی درجے کی سفاک اور مہلک منصوبہ بندی کے ساتھ کیے جا رہے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اسی درجے کی تیاریوں اور جوابی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔غیر روایتی جنگ کے باب میں پراکسی وار کا بھی ذکر ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں تشدد کی وجہ یہ عنصر بھی ہے تاہم اس ذیل میں کسی ملک کا نام تحریر نہیں کیا گیا ہے۔ فوجی ذرائع کے مطابق کہ اس صورتحال کا باضابطہ اعتراف اور دستاویزی شکل میں ان خطرات کو شائع کرنے سے فوج کی صلاحیتوں کو ان کے خلاف بہتر طور پر استعمال کرنے کا موقع بھی ملے گا۔

ذرائع نے کہاکہ مغربی سرحدوں سے کسی سنگین خطرے کی عدم موجودگی اور دفاعی افواج کا تمام ارتکاز مشرقی سرحدوں کی جانب ہونے کے باعث پاکستانی مسلح افواج اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی غرض سے آنے والے امریکی ہیلی کاپٹروں کی بر وقت نشاندہی نہیں کر سکے۔ رپورٹ کے مطابق ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے بیان دیتے ہوئے فضائی افواج کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر فضائیہ کے اثاثے اس تعداد میں موجود نہیں ہیں کہ وہ اس طرح کی کارروائی کی بروقت اطلاع دے سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی فوج کی توجہ کا محور مشرقی سرحد ہی رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق اس بیان نے پاکستان کے دفاعی پالیسی سازوں کو اپنی پالیسی میں اس بنیادی تبدیلی کے حق میں فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ، فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ نومبر 2011میں سلالہ کے مقام پر پاکستانی فوج پر نیٹو افواج کے حملے کو روکنے اور جوابی کارروائی کے لیے بھی مقامی کمانڈرز کے پاس اختیارات اور معقول اثاثے نہ ہونا بھی اس نئی ’غیر روایتی جنگ، کی اصطلاح کی تخلیق کا باعث بنا ہے۔

متعلقہ عنوان :