قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کااجلاس،سرکاری افسران کے تقرروتبادلوں کے معاملے کاجائزہ، پچھلے 10 سال سے پی ایس پی میں شمولیت کیلئے پنجاب سے کسی پولیس افسر کا نام نہیں بھجوایا گیا، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ، صوبائی بیور وکریسی نے پولیس افسروں کو ترقی سے محروم رکھاہواہے جو حق تلفی ہے ، کمیٹی کا وزیر اعلیٰ پنجاب کو خط بھجوانے کا فیصلہ ،سرکاری افسران کے تقرر و تبادلوں اور ترقی کے عمل میں پسند و ناپسند سے کام لیا جاتا ہے، ریٹائرڈ ہونیوالے افسران کی ملازمت میں توسیع یادوبارہ تعیناتی نہیں ہونی چاہیے ، چیئرپرسن کمیٹی

بدھ 2 جنوری 2013 20:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔2جنوری۔ 2013ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کوبتایاگیاہے کہ گزشتہ 10 سال سے پنجاب سے پی ایس پی میں شمولیت کیلئے گریڈ18 کے کسی پولیس افسر کا نام نہیں بھجوایا گیا جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کواس سلسلے میں خط بھجوانے کا فیصلہ کیااورقراردیاکہ صوبائی بیور وکریسی نے10سال سے پنجاب کے پولیس افسروں کو ترقی سے محروم رکھا ہوا ہے جو ان کی حق تلفی ہے، سرکاری افسران کے تقرر و تبادلوں اور ترقی کے عمل میں پسند و ناپسند سے کام لیا جاتا ہے، ریٹائرڈ ہونے والے افسران کی ملازمت میں توسیع یادوبارہ تعیناتی نہیں ہونی چاہیے ۔

بدھ کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا اجلاس چیئرپرسن کمیٹی کلثوم پروین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔

(جاری ہے)

سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تیمور عظمت نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گریڈ 20 سے اوپر کے 2 افسران اس وقت بطور او ایس ڈی کام کر رہے ہیں حالانکہ سیکرٹری پوسٹل کی آسامی خالی پڑی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی پولیس سروس میں 40 فیصد کوٹہ صوبوں کا ہے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ 10 سال سے پنجاب سے پی ایس پی میں شمولیت کیلئے گریڈ18 کے کسی پولیس افسر کا نام نہیں بھجوایا گیا۔

جس پر قائمہ کمیٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو خط بھجوانے کا فیصلہ کیااوررقراردیا کہ گزشتہ 10 سال سے صوبائی بیور وکریسی نے پنجاب کے پولیس افسروں کو ترقی سے محروم رکھا ہوا ہے جس سے ان کی حق تلفی ہو رہی ہے سندھ سے ۔گریڈ 18 کے 53 پولیس افسروں کی پی ایس پی میں شمولیت کے حوالے سے سیکرٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے گریڈ 18 کے 67 افسران کی فہرست بھجوائی تھی جبکہ ان میں 24 افسران کی اے سی آر مکمل نہیں تھی یا ان کیخلاف ڈسپلنری ایکشن لیا گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں مسترد کیا گیا۔

چیئرپرسن قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ان میں 23 پولیس افسروں کی اے سی آر بے داغ ہے جبکہ اطلاعات ہیں کہ ان کے پاس کوئی بڑی سفارش نہ ہونے کی وجہ سے انہیں پی ایس پی میں شامل نہیں کیا گیا لہذا کمیٹی کو اس حوالے سے مکمل رپورٹ پیش کی جائے کہ مذکورہ 23 پولیس افسران کی اے سی آر میں کیا نقص موجود ہے۔ چیئرپرسن قائمہ کمیٹی نے کہا کہ سپیشل سیکرٹری کی پوسٹ قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جبکہ وزارتوں اور محکموں میں توسیع دی جاتی ہے دوبارہ تعینات کئے جانے والے افسران کی بھرمار ہے جن کو سیاسی بنیادوں پر ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ رکھ لیاگیاہے۔

افسران کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے بتایا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کیا جا رہا ہے اور کسی بھی سول آفیسر کا کسی عہدے سے ایک سال سے پہلے ٹرانسفر پری میچور کہلاتا ہے۔ چیئرمین این ایچ اے کو عہدے پر محض ڈیڑھ ماہ ہوا تھا کہ وزیر مواصلات نے ان کے تبادلے کا مطالبہ کر دیا جو اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مسترد کر دیا تھا جبکہ بعد میں وزیر اعظم کے ڈی او لیٹر پر چیئرمین این ایچ اے کو ہٹا دیاگیا۔

انہوں نے کہا کہ سول افسران کی مدت ملازمت میں توسیع اور دوبارہ تعیناتی روکنے کیلئے سول سرونٹ ایکٹ کی شق نمبر 14 کی ذیلی شق نمبر 1 میں ترمیم ہونی چاہیے جس پر کمیٹی نے کہاکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اپنی تجاویز کمیٹی کے سامنے پیش کر دیا۔ قائمہ کمیٹی اس حوالے سے سفارشات مرتب کر کے ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کو رپورٹ بھجوائے گی۔ قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن نے کہا کہ سیکرٹری قومی اسمبلی تاحیات اپنے عہدے پر رہیں گے حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے نیچے والوں کی ترقی رک جاتی ہے ۔