توہین عدالت قانون کیس کا فیصلہ محفوظ، ساڑھے 3 بجے سنایا جائیگا

جمعہ 3 اگست 2012 13:00

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ عدالتیں غیرجانبدارہوتی ہیں اور مک مکا نہیں کیا کرتیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ عدالتیں تحمل سے کام لیں تاکہ جمہوریت مضبوط ہو۔توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ کر رہا ہے ۔ سماعت کے دوران جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آئین کے بہت سے الفاط توہین عدالت کے نئے قانون میں شامل نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اکڈیمک بحث میں نہیں پڑنا۔ نئے قانون کو ریاضی کے انداز میں دیکھیں گے تو مشکل ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نئے قانون کے تحت جوڈیشل پاور رکھنے والا ہر شخص یہ قانون استعمال کر سکتا ہے ۔ نئے قانون میں توہین عدالت کے جرم کی تعریف کوتبدیل کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آرٹیکل 204 میں جج اورعدالت علیحدہ علیحدہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ عدالت میں بیٹھا ہوا جج، جج بھی ہوتا ہے اورعدالت بھی لیکن جب جج موٹروے پرگاڑی چلا رہا ہوتواس وقت صرف جج ہوتا ہے عدالت نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج اگر موٹر وے پر ازخود نوٹس لے گا تو یہ عدالتی حکم ہی ہو گا۔ عرفان قادر نے کہا کہ آئین کی زبان کو ایسے پڑھنا ہے کہ وہ قانون کی زبان سے مطابقت ثابت کرے ۔ ذاتی حیثیت میں کسی کوکوئی استثنٰی حاصل نہیں۔

وقت آگیا ہے کہ عدالتیں تحمل سے کام لیں تاکہ جمہوریت مضبوط ہو عدلیہ، مقننہ اورانتظامیہ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرملک کی ترقی کے لیے چلیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنا عدالتوں کا کام نہیں۔ عدالتیں غیرجانبدارہوتی ہیں اور مک مکا نہیں کیا کرتیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنے والی بات مثبت اندازمیں کی ہے ۔

متعلقہ عنوان :