ہمارے ہاں روایت بن گئی ہے جس کے حق میں فیصلہ نہ آئے وہ عدالت کا دشمن بن جاتا ہے، توہین عدالت کے قوانین پہلے بھی بنتے رہے ہیں، پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر کسی صوبے کو اعتراض نہیں ہوا ،چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے توہین عدالت کیس میں ریمارکس

پیر 30 جولائی 2012 15:08

چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے توہین عدالت قانون کے خلاف مقدمہ کی سماعت میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمارے ہاں روایت بن چکی ہے کہ جس کے حق میں فیصلہ نہ آئے تو وہ عدالت کا دشمن بن جاتا ہے۔ پیر کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر مقدمہ کی سماعت کی، درخواست گزار وکلاء کی طرف قانون کے خلاف دلائل جاری رکھے۔

درخواست گزار شاہداورکزئی نے دلائل میں کہاکہ توہین عدالت کے قانون کا بنیادی مقصد عدلیہ کی تعظیم کروانا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ نے یہ قانون بنا کر صوبائی حکومتوں پر مسلط کر دیا جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔ نئے قانون کو تمام آئین کی روشنی میں پرکھنا ہوگا،توہین عدالت میں سزا یافتہ کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں حالانکہ وہ تو عدل کا دشمن ہے جسے عداوت عدل پر گرفتار کیا گیا، ایک اور وکیل ارشد بگو نے کہاکہ اگر17 رکنی بنچ کی توہین ہو، وہ بنچ نوٹس دے تو اس پر دائر اپیل کی سماعت کوئی نہیں کرسکے گا، اپیل کی سماعت نوٹس دینے والے بنچ سے ہٹ کر ججز نے کرنا ہوتی ہے، ایسی اپیل کی سماعت نہ ہونے پر توہین عدالت کے ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکے گی، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایک موقع پر ریمارکس دیئے کہ ہمارے ہاں رحجان ہے کہ حق میں فیصلہ ہو تو عدالت اچھی ہوتی ہے،خلاف فیصلہ آجائے تو ہم عدالت کے دشمن بن جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس طرح کے قوانین پہلے بھی بنتے رہے ہیں