زرعی شعبے پر ٹیکس ناگزیر ہے ،بدقسمتی سے اسے نافذ کرنے کیلئے کسی میں ہمت نہیں ہے ،شوکت ترین

بدھ 23 جون 2010 16:19

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 23جون ۔ 2010ء) سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ زرعی شعبے پر ٹیکس ناگزیر ہے ،بدقسمتی سے ووٹ ضائع ہونے کے خوف کے باعث کسی کو ہمت نہیں ہو رہی کہ وہ اسے نافذ کرے ،کوئی اسے صوبائی معاملہ قراردے رہاہے اورکوئی وفاقی ، ہمارے امراء کا طریقہ زندگی شاہانہ ہے ، اسے بدلنا ہوگا، یہاں قوانین صرف عام لوگوں کیلئے بنائے جاتے رہے ہیں ، طاقتور کسی قانون کا پابند نہیں رہا ،ایسے رویوں سے ملک ترقی نہیں کرتے ، سب جانتے ہیں کہ ہماری خرابیاں کہاں ہیں؟ مگر انہیں دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو غربت، مہنگائی ، بے روزگاری اورامن و امان کے مسائل کاسامنا ہے جن سے نمٹنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی اور سوچ اپنانے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں ہمیں روڈ میپ تیار کرنا اور ایک تھنک ٹینک بنانا پڑے گا ۔

(جاری ہے)

ا سٹیٹ بینک اور پلاننگ کمیشن جیسے ادارے تھنک ٹینک کا کام کرتے تھے لیکن ان پر توجہ نہیں دی گئی اس لئے کمزور ہو گئے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کوبھی اپنے اندر تھنک ٹینکس بنانے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس لامحدود صلاحیت اور وسائل موجود ہیں ہماری افرادی قوت ہی سب سے بڑی صلاحیت ہے ۔ جب پاکستانی باشندے بیرون ملک جاکر بہترین ڈاکٹرز ، انجینئرز اور بینکرز بننے سمیت زندگی کے ہر شعبے میں آگے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تواگر انہیں ملک کے اندر موقع دیا جائے تو وہ یہاں بہتر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں ہمارے پاس تھرکول ، تیل و گیس اور تانبے سمیت دیگر معدنیات موجود ہیں اس کے علاوہ بندرگاہیں، سمندر، پہاڑ اور میدان حتیٰ کہ قدرت کا دیا ہوا سب کچھ ہے لیکن اس کو اچھے طریقے اور منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مراعات مانگنے سے پہلے ٹیکس ادا کرنا ہوگا جس شخص کی بھی آمدن 3لاکھ سے زائد ہے اسے ٹیکس دیناچاہیے اس کے علاوہ ہمیں پیسے کے غلط استعمال کو بھی روکنا ہوگا اس وقت پاکستان میں ٹیکس کی جی ڈی پی 10فیصد ہے جبکہ سری لنکا میں 17فیصد، بھارت میں 20فیصد، چین میں 21فیصد اور ترکی میں 23فیصد ہے ہماری پبلک سیکٹر کمپنیاں پی آئی اے، ریلوے، سٹیل مل اور پیپکو وغیرہ 250ارب روپے سالانہ نقصان کرتی ہیں جبکہ پبلک سیکٹرڈویلپمنٹ پروگرام کا پلان 300ارب روپے کا تیار کیا جاتا ہے جو 600ارب روپے میں جاکر ختم ہوتا ہے ۔

زراعت کے شعبے کوترقی دے کر قیمتوں کو بین الاقوامی منڈیوں کے برابر لانا ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک بھر کے دکاندار صرف پانچ سے 7کروڑ سالانہ ٹیکس دیتے ہیں اگر جاگیردار اور تاجر ٹیکس نہیں دیں گے تو صرف صنعتوں اور تنخواہوں کے ٹیکس سے گزارا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ صنعت و زراعت کے شعبے پر توجہ دے کر روزگار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے لیکن ان دونوں شعبوں پر توجہ نہیں دی گئی حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام شراکت داروں کو بٹھا کر 15سال کا زرعی پلان مرتب کرے اور صنعتی شعبے میں پیداوار بڑھانے پر توجہ د ے ۔

پاکستانی مصنوعات کو عالمی اور بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی دلانے کی بھی ضرورت ہے جس کیلئے سب سے پہلے روپے کی قدر بڑھانا ہوگی ورنہ برآمدات مہنگی اور درآمدات سستی ہو جائیں گی۔ سابق وزیرخزانہ نے کہا کہ گڈگورننس کیلئے میرٹ کی پابندی ، کارکردگی کے حساب سے تنخواہوں اور مراعات کی ادائیگی اور احتساب کا نظام ضروری ہے اسی سے عوام کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا جب کسی شخص کو پتہ ہوگا کہ اس کے اندر صلاحیت ہوئی تو نوکری ملے گی، کام اچھا کیا ترقی ملے گی ، اصولوں کے مطابق کام کرتا رہا تو احتساب سے بچا رہے گا اور اگر کہیں بدعنوانی کی تو احتساب ہوگا تووہ بہتر طورپراپناکام کرے گا لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی ہر حکومت یہی سمجھتی ہے کہ احتساب صرف الیکشن میں ہوگا عام دنوں میں لوگوں کو جواب دینے کی ضرورت نہیں یہاں ہر شخص کی کوشش رہی ہے کہ اس کے قریبی لوگوں کے کام ہوتے رہیں اور عام آدمی کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی اور میرٹ کا خیال نہیں رکھا گیا جس کے باعث ادارے کمزور ہوئے۔

پاکستان کی ترقی کیلئے قانون کی حکمرانی اوپر سے شروع کرنا ہوگی اور جمہوری نظام چلانے کیلئے عوامی خواہشات پر پورا اترنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ دنیا کا سب سے بہتر نظام جمہوریت ہے اور پاکستان کیلئے بھی یہی نظام بہتر ہے ۔

متعلقہ عنوان :