سرحداور فاٹا میں صورتحال پیچیدہ اور مشکل ہے لیکن مسائل پرقابوپایا جاررہاہے ،گورنرسرحد،پڑوسی ملک ا فغانستان میں موجودہ حالات میں غیرمستحکم صورتحال کاسب سے زیادہ فائدہ منشیات کے سمگلروں کو پہنچ رہا ہے،نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں خطاب

ہفتہ 3 جنوری 2009 19:00

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔3جنوری۔2008ء) صوبہ سرحد کے گورنر اویس احمدغنی نے کہاہے کہ صوبہ سرحداور فاٹاکے بعض علاقوں میں درپیش صورتحال پیچیدہ اور مشکل ہے لیکن یہ دسترس میں ہے اورمسائل پر پہلے ہی بتدریج قابوپایا جاررہاہے اور حکومت کی عملداری مستحکم ہورہی ہے۔انہوں نے مزیدکہا ہے کہ متعلقہ لوگوں کے اندر مسئلے کی نزاکت اور گہرائی کا احساس خصوصا عسکریت پسندی کے خلاف لشکرکشی اس ضمن میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔

وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (اسلام آباد)میں جاری 9ویں نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کررہے تھے جنہوں نے ہفتہ کے روز گورنرہاوس پشاور میں ان سے ملاقات کی۔ ورکشاپ کے شرکاء میں بعض اعلی سول حکام اور تینوں مسلح افواج کے اعلی افسران کے علاوہ سینٹ،قومی وصوبائی اسمبلیوں کے راکین ،ضلع ناظمین،سفارتکار،صنعتکار،وکلاء اورذرائع وابلاغ کے نمائندے شامل تھے۔

(جاری ہے)

گورنر نے اس موقع پرورکشاپ کے شرکاء کی جانب سے اٹھائے گئے متعدد سوالات کے جواب بھی دیئے۔گورنر نے کہا کہ تا ہم یہ امر بھی واضح ہے کہ یہ صورتحال گذشتہ کم وبیش تیس برس کے دوران خاص طور پرپڑوسی ملک میں وقتا فوقتا رونما ہونے والے واقعات کی بناء پرمعرض وجود میں آئی ہے اوریقینا اس پر پوری طرح قابو پانے کیلئے وقت اور وسائل کی ضرورت ہوگی۔

ایک اور سوال کے جواب میں گورنر نے کہا کہ پڑوسی ملک ا فغانستان میں موجودہ حالات میں غیرمستحکم صورتحال کاسب سے زیادہ فائدہ منشیات کے سمگلروں کو پہنچ رہا ہے کیونکہ اس وقت بین الاقوامی منڈی میں 38 ارب ڈالر کاکاروبار اس منشیات کا ہوتا جو افغانستان میں کاشت کی جاتی ہے ۔جناب اویس احمدغنی نے کہا ہے کہ اس طرح کی صورتحال ہمارے ملک میں بھی عسکریت پسندی کے فروغ کی بڑی وجہ ہے کیونکہ عسکریت پسندوں کو نہ صر ف کثیرمقدار میں وسائل دستیاب ہیں بلکہ وہ بیحد تربیت یافتہ اورمسلح بھی ہیں جوکہ کسی طور بھی عمومی چندوں کے ذریعے ممکن نہیں۔

گورنر نے کہا کہ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملات کو وسیع ترتناظر میں جانچاجائے اور اس خطے میں رونما ہونے والے واقعات کادور اندیشی سے جائزہ لیاجائے۔ ایک سوال کے جواب میں گورنر نے کہا کہ اس صوبے کے اندر متاثرہ علاقوں میں امن امان یقینی بنانے کیلئے انتظامی اقدامات کے ساتھ ساتھ پولیس فورس کوبھی تربیت اوراسلحے کی فراہمی کے ذریعہ مستحکم بنایا جارہا ہے۔

ایک اورنکتے کے جواب میں گورنرنے کہا کہ فاٹا میں بھی بتدریج انداز سے سماجی ومعاشی ترقی یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اورمتاثرہ علاقوں میں جہاں حالات بہترہوئے ہیں نہ صرف تعلیم وصحت کے اداروں کو پوری طرح فعال بنانے کیلئے بلکہ ترقیاتی سرگرمیاں شروع کرنے کیلئے بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جارہی ،انہوں نے کہا کہ جنوبی اور،شمالی وزیرستان ایجنسیوں میں سماجی ومعاشی شعبوں میں جاری اقدامات اس امر کی واضح دلیل ہیں ۔

جناب اویس احمدغنی نے کہا کہ علاقہ کے عوام گذشتہ 30برس کے مسائل کی وجہ سے بہت متاثر ہوچکے ہیں اور اب معاشی ترقی ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی بدولت ان کی زندگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے اورحکومت ایساممکن بنانے کیلئے کوئی کسر اٹھانہیں رکھ رہی ۔گورنر نے فاٹا میں رائج مخصوص قانون اور انتظامی نظام کے خدوخال اوراس کے تاریخی پس منظر پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ اس سلسلے میں اداروں کو مستحکم بنانے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔